Maktaba Wahhabi

91 - 126
اللہ تعالیٰ نے حائضہ عورت کے بارے میں احکام کو دو قسموں میں تقسیم فرمایا ہے۔احکام کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا ازالہ حالت حیض کے بعد حالت طہر میں آسانی سے ممکن ہےتو ایسے احکام حالت حیض میں اس کے لیے ضروری قرار نہیں دیے بلکہ اس سے ساقط کر دیے ہیں (سقوط کی دو صورتیں ہیں )یا تو مطلقاً ساقط کر دیے ہیں ،جیسے نماز ہے،حالت حیض میں نماز بالکل معاف کردی ۔یاحالت طہر میں ان احکام کی قضاء(ادائیگی)کاحکم دیا،جیسے روزے ہیں ،حیض میں تو روزہ رکھنے سے منع کردیا لیکن بعد میں اس کمی کو پورا کرنے کا حکم دیا۔ اور احکام کی دوسری قسم وہ ہے جس کا بدل بھی ممکن نہیں اورحالت طہر تک اس کا مؤخرکرنا بھی مناسب نہیں سمجھا تو اس کی مشروعیت کو حیض کے باوجود برقراررکھا،جیسے احرام باندھنا،عرفات میں وقوف کرنا،طواف کےعلاوہ دیگر مناسک حج کا ادا کرنا ہے،اسی طرح اس کے لیےحالت حیض میں قرأت قرآن کاجائز ہونا ہے اس لیے کہ حالت ِ طہر میں اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہےکیونکہ حیض کی مدت لمبی ہوتی ہے،اس مدت میں قرآن کی تلاوت سے روکنے میں کئی نقصان ہیں ،جیسےحفظ قرآن میں خلل وغیرہ۔‘‘[1] 6.امام بن حزم رحمہ اللہ نے بھی جواز کے مسلک کی پر زور تائید کی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’قرآن مجید کا پڑھنااور اس کی آیت سجدہ پر سجدہ کرنا،قرآن مجید کا چھونا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا،یہ سارے کام جائز ہیں ،چاہے وضوہو یا نہ ہو اور چاہے جنبی ہو یا حائضہ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ سارے کام افعال خیر ہیں جو مستحب ہیں اور ان کا کرنے والا اجر کا مستحق ہے،جو شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ مذکورہ کام بعض حالتوں میں منع ہیں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے۔‘‘ اس کے بعد امام ابن حزم نے ان تمام دلائل کا جائزہ لیا جو مانعین کی طرف سے پیش کیے جاتے
Flag Counter