’’ابراہیم(نخعی)نے کہا:حائضہ عورت اگر ایک آیت پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ۔سیدناابن عباس رضی اللہ عنہمانے جنبی کے قرآن پڑھنےمیں کوئی حرج نہیں دیکھا اورنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔سیدہ ام عطیہ نے کہا:ہمیں حکم دیاجاتا تھا کہ حائضہ عورتیں نکل کر(عید گاہوں میں )جائیں ،پس وہ مردوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیر کہیں اور دعا میں شریک ہوں ،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :مجھے سیدنا ابو سفیان نےخبر دی کہ ہر قل(بادشاہ روم) نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط منگوایااوراسےپڑھا،اس میں تھا:بسم اللّٰه الرحمن الرحیم﴿ یٰاَہلَ الکِتٰبِ تَعَالَوا اِلٰی کَلِمَۃٍ﴾(اس کے بعد وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایام حج میں حائضہ ہونے کا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا ذکر ہے)۔‘‘ امام بخاری کے طرز استدلال کو اس طرح واضح کیا گیا ہے،ذیل میں ہم اس کا ترجمہ پیش کرتے ہیں : ’’امام بخاری کا مطلب اس باب سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے حائضہ اور جنبی کے قرآن پڑھنے کے جواز پر استدلال کرنا ہے،اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کے تمام مناسک میں سے طواف کے سوا کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں کیا۔۔۔۔۔اور حج کے اعمال ذکر،تلبیہ اوردعا پر مشتمل ہیں اورحائضہ کو ان میں سے کسی چیز سے نہیں روکا گیا،پس اسی طرح جنبی کا معاملہ ہے،اس لیے کہ عورت کا حدث مردکے حدث سے زیادہ ناپاک ہے۔(جب حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے تو جنبی تو بطریق اولیٰ پڑھ سکتا ہے)اور امام بخاری کے نزدیک اسی ضمن میں وارد احادیث میں سے کوئی حدیث صحیح نہیں ہے،اگرچہ اس کی بابت وارد احادیث دوسروں کے نزدیک باہم مل کر قابل احتجاج بن جاتی ہیں ۔لیکن ان میں اکثر احادیث قابل تاویل ہیں ۔‘‘[1] 5.حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی’’اعلام الموقعین‘‘میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔ایک تو انہوں نے بھی منع قرأت کی روایت کوضعیف اورناقابل اعتبار قراردیا ہے۔ثانیاً:قرأ ت قرآن کے جواز کے موقف کو اس طرح واضح کیا ہے: |