حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اسی لیے امام بخاری اور ان کے علاوہ ان ائمہ نے جو جواز کے قائل ہیں جیسے:طبری،ابن منذر اور امام داؤد،ان سب نے’’کان یذکر اللہ۔۔۔۔۔الخ‘‘کے عموم سے دلیل پکڑی ہے ،اس لیےکہ ذکر کا لفظ عام ہے اس میں قرآن اور غیر قرآن دونوں آجاتے ہیں ۔ذکر اور تلاوت میں جو فرق کیا جاتا ہے اس کی بنیاد صرف عرف ہے۔‘‘ 3.اس حدیث سے بھی استدلال کیا گیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے،جب وہ ایام حج میں حائضہ ہوگئی تھیں ۔فرمایا تھا: ’’فافعلی ما یفعل الحاج غیر أن لاتطو فی بالبیت حتی تطھری ‘‘[1] ’’تم پاک ہونے تک بیت اللہ کے طواف کے سوا وہ سب کچھ کرو جوحاجی کرتے ہیں ۔‘‘ اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ اعمال حج،ذکر ،تلبیہ،تلاوت قرآن اور دعا پر مشتمل ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بیت اللہ کے طواف کےسواکسی چیز سے منع نہیں کیا،صرف طوائف کو مستثنیٰ کیا اور جب حائضہ کے لیے قرآن پڑھنا جائز ہوا تو جنبی کے لیے بطریق اولیٰ جائز ہوگا کہ عورت کاحدث مرد کے حدث سے زیادہ غلیظ ہے۔ 4.اما م بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اسی واقعے کو بنیاد بنا کر باب باندھا ہے: ’’باب:تقضی الحائض المناسک کلھا إلا الطواف بالبیت ‘‘ ’’حائضہ عورت حج کے تمام مناسک پورا کرے سوائے بیت اللہ کے طوائف کے۔‘‘ اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ دونوں احادیث کے علاوہ بعض صحابہ وتابعین کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں ،چنانچہ اس باب کے تحت امام موصوف نے جو اقوال و دلائل نقل کیے ہیں ،ان کا ترجمہ حسب ذیل ہے: |