Maktaba Wahhabi

88 - 126
’’تمام آئمہ کے اقوال اس ابن مسلمہ کی تضعیف پر متفق ہیں اور اگر ہم تسلیم کر لیں کہ دار قطنی کے قول’’وہ ثقہ ہے‘‘سےمراد یہ ابن مسلمہ ہی ہے تب بھی ضروری ہے کہ اسے کوئی اہمیت نہ دی جائے کیونکہ مصطلحات حدیث میں یہ اصول طے ہے کہ جرح،تعدیل پر مقدم ہے،بالخصوص جب کہجرح مفصل ہو،یعنی اس کے ساتھ اس جرح کی وجہ بھی بیان ہو،جیسا کہ یہاں ہے۔‘‘ 2. صحیح روایات کے عموم سے ہر حالت میں قرآن کریم کے پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے،جیسے حدیث میں ہے: ’’کان النبی صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم یذکر اللّٰه علی کل احیانہ ‘‘[1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرحالت میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث سے ان کا استدلال یہ ہے کہ ذکر کا لفظ عام ہے جس میں قرآن بھی شامل ہے کیوں کہ قرآن کو بھی ذکر کہا گیا ہے: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾(الحجر:9) ’’ہم نے ہی اس ذکر(قرآن)کو نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنےوالے ہیں ۔‘‘ گو یا ان کے نزدیک اس حدیث کے عموم سے جنابت سمیت ہرحال میں قرآن کاپڑھنا جائز ثابت ہوا،شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث(ہرحال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے)سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’محُدثْ(بے وضو)،جنبی اورحائضہ کے لیے قرآن پڑھنے سے ممانعت کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مروی حدیث سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حالت میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘[2]
Flag Counter