Maktaba Wahhabi

86 - 126
دونوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں ۔بلکہ حائضہ عورت کے لیےبھی وہ بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں ۔ابن قدامہ نے المغنی میں امام مالک کا یہ قول بھی نقل کیا ہےکہ جنابت کی حالت میں تو قرآن پڑھنا ممنوع ہے مگرحیض کی حالت میں عورت قرآن کو پڑھنے کی اجازت ہےکیونکہ ایک طویل مدت تک اگر ہم اسے قرآن پڑھنے سے روکیں گے تو وہ بھول جائے گی۔ ظاہر یہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کوہاتھ لگانا ہر حال میں جائز ہے خواہ آدمی بے وضو ہو یا جنابت کی حالت میں ہو،یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ابن حزم نے المحلی(جلد اول،صفحہ:77تا84)میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں اور یہ بتا یا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنےاور اس کو ہاتھ لگانے کے لیےجو شرائط بیان کی ہیں ،ان میں سے کوئی بھی قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے۔[1] ٭ مفتی محمد شفیع صاحب طہارت کو ضروری قراردینے کے باوجود لکھتے ہیں : ’’مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حدیث جو مسند احمد میں ہے،اس سے بغیر وضو تلاوت قرآن فرمانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے،اس لیے فقہاء نے بلا وضو تلاوت کی اجازت دی ہے۔‘‘(تفسیرمظہری) [2] محدث عصر شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پہلےبیان ہوچکا ہے کہ محدث(بے وضو)جنبی اور حائضہ کے قرآن پڑھنے سے ممانعت کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔[3] تفسیر ثنائی:اس آیت کی بنا پر بعض اہل علم بغیر وضو کے قرآن پاک کو چھونا جائز نہیں جانتےمگر اکثر محققین یہاں مراد لیتے ہیں کہ قرآن پاک سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو پاک باطن ہیں ۔[4]
Flag Counter