بعض اردو مفسرین کی آراء مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ زیر بحث اور آیت کے سلسلے میں عصر حاضر کے بعض اردو مفسرین کی آراء بھی ذکر کردی جائیں ۔ ٭ مولانا مودودی صاحب آیت مذکور سے ممانعت کا مفہوم لینے والوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر آیت کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی۔سیاق و سباق سے الگ کر کے تواس کے الفاظ کا یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے،مگر جس سلسلۂ کلام میں وارد ہوئی ہے اس میں رکھ کر اسےدیکھا جائے تو یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع نظر نہیں آتاکہ’’اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہ چھوئے‘‘کیوں کہ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو یہ بتا جارہا ہے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے،اس کے بارے میں تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کی اسے شیاطین نبی پر القا کرتے ہیں ۔اس جگہ یہ شرعی حکم بیان کر نے کا آخرکیا موقع ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص طہارت کے بغیر اس کو ہاتھ نہ لگائے؟زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہےکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہّرین ہی چھوسکتے ہیں ،اسی طرح دنیا میں بھی کم ازکم وہ لوگ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں ،اسے ناپاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں ۔‘‘ مختلف مسالک کی آراء مولانا مودودی مرحوم اس بارے میں مختلف مسالک کا ذکر کرتے ہوئےمزید لکھتے ہیں : ٭ مسلک حنفی:رہا قرآن پڑھنا،تو وہ وضو کے بغیر جائز ہے۔(بدائع الصنائع)بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔تعلیم کے لیے قرآن بچوں کے ہاتھ میں دیا جاسکتا ہےخواہ وہ وضو سے ہوں یا بے وضو۔(فتاویٰ عالمگیری) ٭ مذھب مالکی:مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے۔لیکن قرآن کی تعلیم کے لیے وہ استاد شاگرد |