Maktaba Wahhabi

84 - 126
6.چھٹی دلیل،جس سے استدلال کیا جاتا ہے،قرآن کریم یہ آیت﴿ لَّا يَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ﴾ہے،جس کا ترجمہ ہے،’’پاک لوگ ہی اسے چھوتے ہیں ۔‘‘(الواقعہ:79)لیکن یہ خبر ہے،حکم نہیں ہے،کیونکہ یہ نفی کا صیغہ ہے، نہی کا نہیں ہے۔اگریہ نہی کا صیغہ ہوتا تو لا یمَسَّہُ(سین کے زبر سے)ہوتا،پھر اس کا ترجمہ حکم کا ہوتایعنی’’اسے پاک لوگ ہی چھوئیں ‘‘اس صورت میں اس سے عدم قراءت اور عدم مس قرآن پر استدلال ہوسکتا تھا۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں یہ خبردےر ہا ہے کہ لوح محفوظ کو یا قرآن کریم کو صرف فرشتے ہی چھوتے ہیں ،یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی اس قرآن یا لوح محفوظ تک رسائی نہیں ہے۔ ’’لا یمَسُّہُ‘‘میں ضمیر کا مرجع بعض نے لوح محفوظ کو اور بعض نے قرآن کو بنایا ہے۔مطلب دونوں صورتوں میں مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھےکہ قرآن،شیاطین لے کراترتے ہیں ۔اللہ نے یہ فرمایا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے،یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے کیوں کہ ایک تو وہ لوح محفوظ میں ہےجس تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ثانیاً:پاک فرشتے ہی اسے چھوتے ہیں ،فرشتوں کے علاوہ کوئی اور وہاں پہنچ ہی نہیں سکتا۔ثالثاً:فرشتے(روح الامین) ہی اسے لے کرزمین پر اترتے ہیں ۔ اس اعتبار سے آیت کا تعلق مسئلہ زیربحث سے کہ طاہر شخص کے سوا اسےکوئی چھوسکتا ہے یا نہیں ؟ہے ہی نہیں ۔علاوہ ازیں یہ سورت مکی ہے اور مکی سورتوں میں احکام و مسائل کا زیادہ بیان نہیں ہے۔بلکہ ان میں توحید ورسالت اور آخرت کے اثبات پر زور دیا گیا ہے،البتہ فحوائے آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حدثِ اصغر،اکبر سے پاک ہو کر قرآن کی تلاوت کرنا افضل ہے تو اس کی افضلیت میں یقیناً کوئی کلام نہیں (جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آئے گی)۔
Flag Counter