Maktaba Wahhabi

82 - 126
اس روایت کی صحت میں اگرچہ اختلاف ہے،جیسا کہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’اسے دارقطنی نے عمروبن حزم،عبداللہ بن عمر اور عثمان بن ابی العاص سے مسندطور پر بیان کیا ہے لیکن ان میں ہر ایک کی سند محل نظر ہے۔‘‘ تاہم محدثین کی اکثریت اس کی صحت کی قائل ہے۔شیخ البانی نے بھی اسے مجموعی طرق کی بنیاد پر صحیح قراردیا ہے۔[1] لیکن یہ روایت مسئلہ زیر بحث میں واضح نہیں ہے،اس لیے اسے بھی مدار استدلالل نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔کیوں کہ اس میں طاہر(پاک شخص)کو قرآن مجید چھونے کی اجازت دی گئی ہے اور طاہر کا لفظ چار قسم کے افرادپر بولاجاتا ہے۔ ٭ جو’’حدث اکبر‘‘(جنابت،حیض ونفاس)سے پاک ہو۔ ٭ جو’’حدث اصغر‘‘سے پاک ہو(یعنی بے وضو نہ ہو)۔ ٭ جس کےبدن پر ظاہری نجاست نہ ہو۔ ٭ جو مومن ہو(چاہے وہ جنبی ہو یا بے وضو)۔ اس آخری مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے﴿ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ﴾’’مشرک ناپاک ہیں ‘‘(التوبہ:28)اس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ مومن پاک ہے،چاہے وہ کسی حالت میں بھی ہو،علاوہ ازیں حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے،چنانچہ حدیث میں ہے: ’’ان المؤمن لاینجس ‘‘[2] ’’مومن نجس(ناپاک)نہیں ہوتا(یعنی وہ پاک ہوتا ہے)۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بات سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت فرمائی تھی،جب ابوھریرہ رضی اللہ عنہ جنبی تھے۔جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ مومن ہر حالت میں طاہر ہی ہوتا ہے،البتہ اس سے وہ صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کی صراحت نص سے ثابت ہے،جیسے بے وضو یااجنبی آدمی کی بابت حکم ہےکہ وہ نماز نہیں
Flag Counter