یہ بیان فرمائی: ’’ فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ ‘‘[1] ’’میں مسجد کو حائضۃ عورت اور جنبی کے لیے حلال نہیں کرتا‘‘(یعنی مسجد کے اندر سے ان کے گزرنے کو جائز نہیں سمجھتا) شیخ البانی رحمہ اللہ نےاس حدیث کی سند پر بھی تفصیلی گفتگو کرکے اسے بھی ناقابل اعتبار قراردیا ہے۔[2] علاوہ ازیں یہ روایت قرآن کے بھی خلاف ہے۔قرآن مجید کی آیت﴿ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ﴾(النساء:43)سے جنبی کا مسجد سے گزرنا جائز معلوم ہوتاہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کی کچھ توضیح کردی جائے۔ مذکورہ آیت کی مختصر وضاحت قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ:’’اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو تم نماز کے قریب مت جاؤ،یہاں تک کہ اپنی بات سمجھنے لگو اورجنابت کی حالت میں (بھی)یہاں تک کہ غسل کر لومگر یہ کہ راہ چلتے گزرو(اس صورت میں گزرنا جائز ہے)۔‘‘ آیت کا پہلا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب شراب کی حرمت کاحکم نازل نہیں ہوا تھا۔بعد میں جب شراب حرام قرار دی گئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔دوسرا حکم جنبی آدمی(عورت ہو یا مرد)کے لیے ہے کہ وہ مسجد میں جنابت کی حالت میں نہ جائیں ،ہاں مسجد میں سے صرف گزرنا ہوتو جائز ہےلیکن وہاں زیادہ دیر ٹھہرنا اور بیٹھنا ممنوع ہے۔اس تفسیر کی رو سے صلاۃ(نماز)سے مراد موضع الصلاۃ(نمازپڑھنے کی جگہ)یعنی مسجد ہے۔مطلب یہ ہے کہ نشے میں مدہوش شخص نماز پڑھنے کے لیے مسجدمیں جائے نہ جنبی آدمی،جب تک غسل |