ثانیاً:اگر یہ روایت صحیح بھی ہو،تب بھی اس کا مرفوع ہونا صریح نہیں ۔ ثانیاً:اس کا مرفوع ہونا بھی اگر صریح ہوتو یہ شاذیا منکر ہے،اس لیے کہ عائذ بن حبیب اگرچہ ثقہ ہے لیکن ابن عدی نے اس کی بابت کہا ہے کہ اس نے کئی منکر روایات بیان کی ہیں ۔ اس کے بعد شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا: ’’میں کہتا ہوں :یہ روایت بھی شاید انہی(منکر)روایات میں سے ہو۔اس لیے کہ اس سے زیادہ ثقہ اور اس سے زیادہ حفظ وضبط رکھنے والے راوی نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بیان کیا ہے جو دار قطنی(رقم44)میں ہے۔۔یہ موقوف روایت حسب ذیل ہے۔ابوالغریف ہمدانی کہتے ہیں : ’’ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ آپ نے پیشاب یا پاخانہ کیا،پھر آپ نے پانی کا ایک برتن منگوایا،اوراپنے ہاتھ دھوئے،پھر قرآن کے آغاز سے کچھ حصہ پڑھا،پھر فرمایا:جب تک تم میں سے کسی کو جنابت نہ پہنچے تو قرآن پڑھے،پس اگر جنابت پہنچے تو ایک حرف بھی نہ پڑھے۔‘‘ امام دارقطنی فرماتے ہیں :’’یہ روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے(موقوف) صحیح سند سے ثابت ہے۔‘‘ اس سےواضح ہوتا ہے کہ حدیث مذکور’’لا یحجبہ۔۔۔۔۔ الخ‘‘کی متابع یہ روایت موقوف ہے،یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔علاوہ ازیں امام ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ حدیث’’لایَحْجُبُہُ۔۔۔الخ‘‘ (اگر صحیح بھی ہوتو)اس شخص کی دلیل نہیں بن سکتی جو جنبی کو قرآن پڑھنے سے منع کرتا ہے،اس لیے اس میں ممانعت کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ صرف حکایت فعل ہے۔‘‘[1] 4.چوتھی روایت جس سے استدلال کیا جاتا ہے،وہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھروں کا رخ مسجد نبوی سے پھیرنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کا آنا جانامسجد کے اندر سے نہ ہو بلکہ باہر سے ہو اور مسجد میں وہ صرف اسی وقت آئیں جب وہ پاک ہوں اور مسجد میں آنے کا مقصد نماز پڑھنا ہو۔اس حکم کی وجہ آپ نے |