جاتی اور امام شافعی نے یہ حدیث ذکر کی اور فرمایا:’’اہل حدیث(محدثین)کے نزدیک یہ حدیث پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔امام بیہقی نے کہا:امام شافعی نے اس حدیث کے ثبوت میں جو توقف کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مدار عبداللہ بن سلمہ کوفی پر ہےاورسن رسیدہ ہوگیا اور اس کی حدیث اور عقل میں کچھ نکارت محسوس کی گئی اور اس نے یہ حدیث بھی سن رسیدگی کے بعد ہی بیان کی ہے۔‘‘[1] 3.تیسری حدیث جو مذکورہ حدیث کے متابع کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور اسے علمائے معاصرین میں سے بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کہا ہے،یہ مسند احمد(1/110)كی روایت هے۔اس كے الفاظ حسب ذیل هیں : ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس وضو کا پانی لایا گیا،پس آپ نے کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا،تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں بازو تین تین مرتبہ دھوئے،پھر اپنے سر کا مسح کیا،پھر اپنے دونوں پیر دھوئے،پھر فرمایا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔پھر قرآن کریم سے کچھ پڑھا اور فرمایا:یہ(قرآن کا پڑھنا)اس شخص کے لیے ہے جو جنبی نہیں ہے۔رہا جنبی تو وہ ایک آیت بھی نہیں پڑھ سکتا۔‘‘[2] اس روایت کو بعض علماء نے صحیح قرار دیا ہے ،جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس سےبھی اختلاف کیا ہے اور کہا ہےکہ اس کی سند میں ابولغریف روای ہے جس کی توثیق ابن حبان کے سوا کسی نے نہیں کی اور ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں ،اس لیے ان کی توثیق قابل اعتبار نہیں ،بالخصوص جب کہ دیگر ائمہ کی رائے ان کے معارض ہو۔ابوحاتم راوی نے اس کی بابت کہا ہے کہ ابوالغریف مشہور نہیں ۔محدثین نے اس میں کلام کیا ہےاوریہ اصبغ بن نباتہ جیسے راویوں کااستادہے اور اصبغ ابو حاتم کے نزدیک لیّن الحدیث اور دوسروں کے نزدیک متروک ہے،اس قسم کے راوی کی حدیث حسن بھی نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ صحیح تسلیم کی جائے۔ |