حجت کے قابل ہوتی ہے۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس رائے کی وجہ سے اکثر علماء اس روایت سے استدلال کرتے ہیں لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ نے ابن حجر رحمہ اللہ کی اس رائے کا رد کیا ہے اور لکھا ہے: اس حدیث کے بارے میں حافظ کی اس رائے سے ہم موافقت نہیں کرتے،اس لیے کہ مشار لیہ (ضعیف)راوی عبداللہ بن سلمہ ہے اور تقریب التہذیب میں خودحافظ ابن حجر نے اس کے ترجمے میں کہا ہے’’سچا ہےلیکن اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا‘‘اوریہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ یہ حدیث اس کے اسی دور کی ہےجب اس کے حافظے میں خرابی پیداہوگئی تھی۔پس بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر نے جس وقت اس حدیث پر حسن ہونے کا حکم لگایاتو اس کا ترجمہ ان کے ذہن میں مستحضر نہیں رہا،واللہ اعلم۔یہی وجہ ہے کہ امام نووی نے المجموع(2/159)میں جب یہ حدیث نقل کی اور امام ترمذی کی تصیح بھی ذکر کی تو انہوں نے امام ترمذی کی رائے پر تعقب کیا اورکہا :’’امام ترمذی کے علاوہ دیگر حفاظ محققین نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر انہوں نے امام شافعی اور امام بیہقی کی وہ رائے نقل کی ہے جو امام منذری نے’’مختصر السنن‘‘میں نقل کی ہے(جس میں دونوں نے اسے ضعیف کہا ہے)ان محققین نے جو کہا ہے،وہی ہمارے نزدیک راجح ہے کیوں کہ اسے بیان کرنے میں عبداللہ بن سلمہ متفرد ہے اس کی یہ روایت اس وقت کی ہے جب اس کا حافظہ مغیر ہوگیا تھا۔‘‘[2] امام منذری کی جس عبارت کا حوالہ آیا ہے،اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے: ’’امام بخاری نے عمرو بن مرۃ کے حوالے سے کہا ہےکہ عبداللہ بن سلمہ ہمیں حدیث بیان کرتا ہے،کچھ کو ہم پہچانتے ہیں اور کچھ کونہیں پہچانتے اور وہ سن رسیدہ ہوگیا تھا،اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی |