Maktaba Wahhabi

59 - 126
’’سوتی اور اُونی جرابوں کے معاملے میں عموماً ہمارے فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر آجائےاور کسی قسم کی بندش کے بغیرخود قائم رہ سکیں ۔میں نے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے مگرسنت میں ایسی کوئی چیز نہ مل سکی۔سنت سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔۔۔۔(روایت لکھنے کے بعد لکھتے ہیں )اس روایت میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقہاء کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو۔اور نہ ہی یہ ذکر کسی جگہ ملتا ہےکہ جن جرابوں پرحضور نے اور مذکورہ صحابہ نے مسح کیا،کس قسم کی تھیں ۔اس لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہاء کی عائد کردہ ان شرائط کا کوئی ما ٔخذ نہیں ہے۔اور فقہاء چونکہ شارع نہیں ہیں ،اس لیے ان شرطوں پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گناہ گار نہیں ہوسکتا۔ مسح علی الخفین پر غور کر کے میں نے جو کچھ سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دراصل یہ تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں میں دی گئی ہے جب کہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھکنے پرمجبور ہوں اور بار بار پاؤں دھونا ان کےلیے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔اس رعایت کی بنا اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزےپہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے۔اس لیےان کے دھونےکی ضروریات باقی نہ رہے گی۔بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطا کرنےکی مقتضی ہوئی۔لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کی گرد وغبار سے بچنے کےلیےیا پاؤں کےکسی زخم کی حفاظت کے لیے آدمی پہنے اور جس کے باربار اُتارنےاور پہننے میں آدمی کو زحمت ہو اس پر مسح کیا جاسکتا ہے خواہ وہ اُونی جراب ہو یاسوتی،چمڑے کاجوتا ہو یا کرمچ کا،یا کوئی کپڑا ہی ہو جو پاؤں پر لپیٹ کر باندھ لیا گیا ہو۔ میرےنزدیک دراصل یہی معنی مسح علی الخفین وغیرہ کی حقیقی روح ہیں اور اس روح کے
Flag Counter