کے بجائےفقہی توسع کی ضرورت ہے جس کی مثالیں ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں پیش بھی کی تھیں ،اس اعتبار سے بھارت کے مسلمان مذہبی پیشواؤں سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ؎ اے باد صبا ایں ہمہ آوردۂ تُست ایک دوسرا رخ:بھارتی حکومت نے اپنی عدالت عُظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں مسئلہ زیر بحث میں قانون سازی کی کہ جو مسلمان بیک وقت تین طلاقیں دےگا،اس کو تین سال قید اور جرمانہ ہوگا۔قومی اسمبلی(لوک سبھا)سے پاس ہوکرجب یہ قانون ایوان ِبالا(راجیہ سبھا)میں گیا تو اس پر بجا طور پر یہ اعتراض ہواکہ تین برس کی مدت میں اس کے گھر کا محافظ اور بیوی بچوں کے نان نفقہ کا ذمے دار کون ہوگا؟یہ اعتراض چونکہ نہایت وزنی ہے اور اس کے حلکیے بغیر اس قانون پر عمل درآمد بہت سی خرابیوں اورپیچیدگیوں کا باعث ہوگا۔اس لیے راجیہ سبھا میں یہ قانون پاس نہیں ہوسکا،اور بلاشبہ پاس ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس کا اصل حل یہ ہے کہ جو ہم نے گزشتہسطور میں بھی پیش کیا تھا اور متعدد علمائے احناف کے تائیدی فتاوے اور آراء بھی پیش کی تھیں اور اب پھر پیش کر رہے ہیں کہ اس کا آسان اور صحیح حل یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی شمار کیا جائے۔اس صورت میں گھر بھی اجڑنے سے محفوظ رہیں گے،عورتوں پر ظلم و ستم کا راستہ بھی بند ہوجائے گا اور معصوم بچے باپ کے ہوتے ہوئے بے سہارا نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں یہ ایسا حل ہے جس میں شریعت سے کوئی تجاوزیا انحراف نہیں ہوتا بلکہ حنفیت سے بھی خروج لازم نہیں آتا جس کی ضروری تفصیل گزشتہ مضمون میں موجود ہے۔ بھارت کے علمائے احناف کوچاہیے کہ وہ بھارتی حکومت کے سامنے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا یہ حل پیش کریں تاکہ صحیح قانون بنے اور اس قانون سے بچ جائے جو تجویز کیا گیا ہے اورجو اپنی غیر معقولیت کی وجہ سے پاس بھی نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی قانون الٰہی قانون کا مقابلہ نہیں کرسکتا،نہ انسانی قانون انسانی مسائل کو حل ہی کرسکتا ہے۔انسانی مسائل کا حل اللہ کےبتلائے ہوئے قوانین کے اختیار کرنے ہی میں مضمر ہے کیونکہ |