ایک مجلس کی تین طلاقوں کا صحیح حل وزارت قانون اور نظریاتی کونسل کی خدمت میں گزشتہ سطو رمیں راقم نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تحسین کیہے جس میں اس نے مسلم معاشرے میں بیک وقت تین طلاقیں دینے کےبڑھتے ہوئے رجحان کو کو روکنے کے لیے اسے طلاق کا بدترین طریقہ اورپھراسے غیر قانونی قراردیا تھااور حکومت کو تاکید کی تھی کہ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ(ہند)نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی اور اسے مسلمانوں کے مذہب میں مداخلت اور اس اعتبار سےبھارت میں مسلمانوں کو غیر محفوظ قراردیاتھا۔[1] یہ بات بلاشبہ صحیح ہےکہ بھارت کےسیکولر آئین کے رو سے بھارتی حکومت کو مسلم پرسنل لامیں مداخلت کاحق حاصل نہیں ہے۔لیکن مسلمان عورتیں بھی بھارت کی شہری ہیں ،جب مسلمان مردوں کی طرف سے ان پر ظلم روا رکھا جائےگا اور تسلسل سے کیا جائے گا اور مسلمان رہنماؤں کی طرف سے اس کے ازالے اورسدّباب کے لیے کوئی معقول کوشش نہیں کی جائے گی تو پھر بھارتی عدالتوں اور بھارتی حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس ظلم کے سدّ باب کے لیے کوئی طریق کار تجویز کرے۔ اس لیے بھارت کے مذہبی پیشواؤں کا اس کو مذہب میں مداخلت قراردینا،گو ایک حدتک درست ہےلیکن انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ انہوں نے مسلمان عورتوں کو اس ظلم سے بچانے کے لیے کچھ کیا ہے؟وہ تو اپنے فقہی خول میں بند ہیں اور اس سے باہر نکلنا انہیں پسند ہی نہیں ہےجبکہ اس مسئلے کے حل کےلیے فقہی جمود |