کفیل الرحمن نشاط (نائب مفتی دارالعلوم دیوبند)21/شعبان 1405ھ الجواب الحصیح ظفیر الدین غفرلہ (مفتی دارالعلوم دیوبند)21/شعبان 1405ھ مہر دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے دوسرے دارالافتا اور اہل علم بھی اسی کے مطابق فتوی دیاکریں ،اس لئے قریب قریب پورے ملک کا عرف یہی ہے کہ لوگوں نے ناواقفیت کی وجہ سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جب تک تین بار طلاقیں کا لفظ نہ استعمال کیا جائے،طلاق واقع ہی نہ ہوگی۔‘‘ ازمرتب:اسی سے ملتی جلتی صورت ہمارے خیال میں یہ ہے کہ لوگ شرعی احکام سے عدم واقفیت کی وجہ سے تین کے عدد کے ساتھ طلاق دینے ہیں لیکن بعد میں جب اس کا علم ہوتا ہے توکہتا ہے کہ میں سمجھ رہا تھا کہ تین مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کئے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔[1] تبصرہ از راقم:اس صورتِ حال کو بھی ہمدردی سے دیکھنا چاہیے اور ایسے شخص کی بھی تین طلاقوں کو تاکید پر محمول کرکے ایک طلاق کے وقوع کاحکم لگانا چاہیے۔ مسلم ممالک میں طلاق کا قانون مسلم ممالک نے تطلیقاتِ ثلاثہ کے سلسلے میں جو قوانی بنائے ہیں ،ان کی حیثیت شرعی حجت کی نہیں ہے،اس لئے ان قوانی کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ،تاہم یہ معلوم کرنا خالی ازدلچسپی نہ ہوگا کہ کن ممالک نے اس سلسلے میں اقدامات کئےہیں ۔اسی مقصد کے پیش نظر،یعین بغرضِ معلومات اس کی تفصیل پیش کی جاتی ہے: 1۔سب سے پہلے مصر نے 1929ء میں ایک ہی وقت کی تین طلاقوں کے اصول کو ختم کردیا اور قانون |