Maktaba Wahhabi

42 - 126
دوسری صورت میں صرف ایک،اس لئے کہ تاکید کسی چیزکے وقوع کو اور(مزید)مؤکدتوکرتا ہے لیکن اس کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کرتا۔ اس طرح اس معاملے کا دارودار طلاق دینے والے کے ارادے پر ہے مگر اس میں اس بات کا قوی احتمال تھاکہ لوگ تین طلاق کے ارادے سے اس طرح کا فقرہ استعمال کریں اور بعد میں بیو ی علیحدگی سے بچنے کےلئے کہہ دیں کہ تاکید کی نیت تھی،اس فقہا نے کہا کہ ایسے فقروں میں دیانتا اور فی مابینہ وبین اللہ توایک ہی طلاق واقع ہوگی ۔یہاں تک کہ اگر کوئی اس طرح طلاق دینے کے بعد پھر اپنی بیوی سے رجعت کرلے تو اس کو ان شاءاللہ کوئی گناہ نہ ہوگا۔ مگر ہمارے زمانے میں جہالت اور ناواقفیت اور شرعی تعلمات سے دوری کے باعث صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ طلاق واقع ہی اس وقت ہوتی ہے جب تین بارطلاق کا لفظ کہا جائے۔ان حالات میں مناسب ہوگا کہ جہاں صرف لفظ’طلاق‘کا تکرار ہواور تاکید کا معین مراد لیا جاسکتا ہو،وہاں ایک ہی طلاق واقع قرار دی جائے اور قضاء(عدالت میں )بھی اس شخص کی نیت کا اعتبار کیاجائے۔خوشی کی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء نے اس مسئلے میں پیش قدمی کی ہے اور فتاوی میں اس کی رعایت شروع کردی ہیں چنانچہ اس مسئلے پر دارالعلوم دبوبند کا ایک فتوی ملاحظہ ہو: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو اس طرح طلاق دی:’’تم کو طلاق طلاق طلاق۔‘‘اس صورت میں کون سی طلاق واقع ہوگی اور کیا مراجعت کی گنجائش ہوگی؟ (المستفتی :خالد سیف اللہ رحمانی) جواب:صورتِ مذکورہ میں ہمارے اطراف کے عرف کے اعتبار سے زید کی مدخولہ بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوئی۔اگر آپ کے یہاں کا فرف بھی یہی ہوتو ایک طلاقِ رجعی کے وقوع کا حکم ہوگا۔طلاقِ رجعی کا حکم ہے کہ اندرونِ عدت رجوع اور بعد عدت بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح جائز ہے۔واللہ اعلم) (الفتاوی الہندیۃ:2/50)
Flag Counter