Maktaba Wahhabi

41 - 126
یہی سمجھے کہ تین طلاقیں مل گئیں ۔‘‘[1] 2۔مولانا مجیب اللہ ندوی (بھارت):آپ بھی مسئلہ طلاقِ ثلاثہ میں حنفی موقف کے نہایت سختی سے قائل ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی کتاب ’اسلامی فقہ‘میں لکھتے ہیں : ’’البتہ اکر کسی نے اس طرح کہا کہ تجھ کو طلاق،طلاق،طلاق تو اگر اس سے اس کی نیت تین طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ صرف تاکید کرنی مقصود تھی تو ایک ہی طلاق رجعی پڑےگی۔‘‘[2] 3۔مفتی مہدی حسن(سابق صدرمفتی دارالعلوم دیوبند):اپنی کتاب إقامة القيامة میں تحریر کرتے ہیں : ’’اگر عورت مدخول بہا ہے اور ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تہا لیکن بتکرارلفظ تین طلاق دی اور دوسری اور تیسری طلاق کو بطورِ تاکید استعمال کیا ہوتو دیانتا قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا اور ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگی،اس میں اختلاف نہیں ۔‘‘[3] 4۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی(سیکرٹری جنرل مسلم پرسنل لا بورڈ،ہند):تاکید کے طور پر تین مرتبہ طلاق کا لفظ دہرانے کے بارے میں آپ نے ’’تین طلاقوں میں تاکید کا اعتبار‘‘کا عنوان قائم کرکے اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور آپ بھی ان علمائے احناف میں سے ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہی واقع ہونے کے مسئلے میں سخت متشدد ہیں ،لیکن اس کے باوجود لکھتے ہیں : ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی،لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب تین کے عدد کی صراحت ہو مثلا کہا جائے:میں نے تین طلاقیں دیں ۔‘‘اگر صرف طلاق کو تین بار کہا کہ تم کو طلاق ،طلاق،طلاق تواب دوباتوں کااحتمال ہے:ایک یہ کہ تین طلاقیں دینا مقصود ہیں یا یہ کہ ایک ہی طلاق دینی مقصود ہےاور تاکیدکے لئے تین بار طلاق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔پہلی صورت میں تین طلاقیں واقع ہوں گی اور
Flag Counter