ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی اکثریت طلاق کے شرعی طریقے اور اس کی حکمتوں سے ناواقف ہو،جہاں معاشرتی ،معاشی مشکلات ومسائل نے لوگوں سے صبروحوصلہ اور تحمل چھین کرانہیں ذہنی تناؤکا مریض بنادیاہو،جہاں مطلقہ عورت کے لئے باغزت زندگی گزارنا یا عقدِ ثانی کرنا بے حد مشکل ہو او رطلاق مرد کی بجائے حقیقت میں عورت میں عورت کےلئے سزا قرارپائے ،کیا ایسے معاشرے میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو لازما نافذ قرار دینا حکمت ومصلحت پر مبنی شریعت ک منشا ہوگااور کیا اس سے اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے کی سزا فی الواقع اس کے اصل مجرم یعنی شوہر کو ہی ملےگی۔[1] موصوف کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اپنے ہم مسلک علمائے احناف بلکہ اپنے دادا مرحوم کے موقف کو کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوجاتی ہیں ،شریعت کی حکمت ومصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ مسئلہ زیربحث،مذاہبِ رابعہ کی روشنی میں برصغیر پاک وہند کے جن علمائے احناف نے طلاقِ ثلاثہ کے ایک طلاق رجعی ہونے کا موقف اختیار کیاہے،وہ قرآن وحدیث کی تصریحات کے تومطابق ہے ہی لیکن اس میں آئمہ اربعہ کے مسلک سے بھی انحراف نہیں پایا جاتا جن کی بابت یہ دہائی دی جاتی ہے کہ ان کے متفقہ مسلک سے انحراف کی قطعا اجازت نہیں ہے،لیجئے !ائمہ اربعہ اور مذاہب اربعہ کاموقف بھی ذیل میں ملاحظہ فرمالیں : مذاہب اربعہ کا متفقہ موقف.........تاکید کے طورپر’’تین طلاقیں ،ایک ہی طلاق ہے!‘‘ چاروں فقہوں (حنفی،حنبلی،شافعی اور مالکی )میں ایک اور نقطہ نظر سے بھی تین دفعہ طلاق کا لفظ دہرانے کے باوجود اسے ایک طلاق شمار کرنے کی گنجائش موجود ہے،حالانکہ یہ سب اصحابِ فقہ ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کے قائل ہیں ۔ |