تابعین رحمہم اللہ اور آئمہ کرام کی بھی یہی رائے ہے۔نیز اگر حکومت مختلف فقہی آرامیں کسی ایک رائے کو قانون کا درجہ دے دے تو وہ رائے مرجوح ہو،تب بھی فتوی او رفیصلے اسی مطابق کئے جائیں گے۔[1] 2۔مولانا سلطان احمد اصلاحی ،ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی ،علی گڑھ کے نہایت اہم رکن ہیں ۔مسلکا حنفی ہیں ،لیکن اللہ نے فقہی جمود سے ہٹ کرسوچنے کی توفیق سے نوازا ہے۔طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’سرفہرست مسئلہ طلاقِ ثلاثہ کا ہے۔ہندوستان کے موجود حالات میں مصلحت اس کی متقاضی ہے کہ ایک مجلس کی یتن طلاق کو ایک ہی تسلیم کیاجائے۔ضرورت کے تقاضے سے اگر مفقود الخبر کے مسئلے میں مالکیہ کے مسلک پر شرحِ صدر سے عمل کیا جارہا ہے تو اس طرح کی ضرورت سے اگر اس مسئلے میں بھی مسلکِ اہل حدیث کو اختیار کرلیاجائے تو یہ گناہ اورکسی جرم کا ارتکاب نہیں ہوگا۔حلالے کا حیلہ شرعی آج کے تنقیدی اور سوالیاتی دور میں اس دین کی بدنامی کا باعث ہے۔اس برائی کے ارتکاب سے بہت بہتر ہے کہ امت کے ایک معتبر فقہی دھارے کی رخصت اور رعایت سے فائدہ اٹھا لیاجائے۔مزید تفصیل کےلئے دیکھے جائیں خاکسار کے دو مضامین:’’مسئلہ طلاق،متوازن نقظہ نظر‘‘اور ’’مسئلہ طلاق،بعض ملاحظات ‘‘مطبوعہ سہ روزہ ’’دعوت‘‘دہلی۔نیز پندرہ روزہ’’ترجمان‘‘اہل حدیث دہلی۔اس کے سلسلے میں علمائے ملت سے اسی قدر گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ اسے مسلکی أنا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اسلام ،امت اور دعوت کے پس منظر میں دیکھیں اور اللہ کے دین کو بدنام ہونے سے بچائیں ۔[2] 3۔ ایسے ہی ماہنامہ ’’ الشریعہ ‘‘ کے مدیر عمار خاں ناصر اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ معاشرہ قانون اور اخلاقیات ، نفاذ شریعت کی حکمت عملی کے چند اہم پہلو ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں : |