دوسرے ،وہ علماء ہیں جو طلاق کے غلط طریق استعمال سے ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔اگر ان دونوں کا رویہ صحیح ہوجائے یا کم از کم دونوں میں سے کوئی ایک ہی اپنا رویہ ٹھیک کرلے تویہ مسئلہ نہایت آسانی سے حل ہوجاتا ہے۔ 1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو طلاق کا حق نہیں دیا کہ وہ اس کو غلط طریقے سے استعمال کرکے عورت پر ظلم کرے اور ذرا ذرا اسی بات پر طلاق دے ڈالے۔[1] بلکہ گھر کا نظام مستحکم طریقے سے چلانے کے لئے مرد کو حاکمیت کا جو مقام عطا کیا گیا ہے،حق طلاق بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ 2۔بدقسمتی سے مسلمان عوام میں اسلامی تعلیمات کا یہ شعور بالعموم نہیں ہے لیکن علماء کو تو باشعور ہونا چاہیے تاکہ وہ عوام کی جہالت کا ازالہ’’خرابی بسیار‘‘سے پہلے ہی کرلیں اور ایساکرنا کوئی مشکل بات بھی نہیں ہے۔ عوام تو کالأنعام ہوتے ہیں ،ان کو سمجھانا مشکل ہے،نیز ان کی تعداد بھی علماء کے مقابلے میں بے انتہاء ہے،ان سب تک رسائی ناممکن ہے۔اگر علمااس کو سمجھ لیں او ران کے دل عوام کی خیرخواہی کے جذبوں سے معمور ہوں تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوسکتا ہے۔ ہم پورے شرحِ صدر اور نہایت یقین واذغان سے یہ بات کہتے ہیں کہ ہم مسئلے کا جو حل پیش کریں گے،اس میں دائرہ شریعت سے قطعا تجاوز نہیں ہوگا بلکہ فقہی جکڑ بیدیوں سے بھی باہر نکلنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ،کیونکہ بہت سے حنفی علماانہی فقہی پابندیوں میں ہی جینا چاہتے ہیں ۔ موجودہ حالات میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کا صحیح حل مسلمان عوام کی جہالت،بے صبری وعدم تحمل اور طریقہ طلاق سے بے شعوری کی وجہ سےمسلمان عورتوں اور بچوں پر جو ظلم ہورہا ہے،اس کے ازالے کا ایک ہی طریقہ او رسے مرض کا ایک ہی علاج ہے کہ |