ابن معین رحمہ اللہ نے کلثوم بن الجوشن کو لیس بہ باس کہا ،[1]ابن حبان رحمہ اللہ اسے کتاب الثقات میں بھی لائے اور المجروحین میں لاکر سخت جرح بھی کی، یہ بات معلوم ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ توثیق میں متساہل اور جرح میں متشدد ہیں ، یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان کے اس کلام کو مبالغہ آمیزی قرار دیا۔[2]امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے منکر الحدیث اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ۔ علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے ایک روایت کی تحقیق کے دوران ان سے متعلقہ یہ دونوں قسم کے کلام نقل کرنے کے بعد فرمایا: ’’فھو وسط حسن الحديث إن شاء الله تعالى‘‘[3]یعنی یہ حسن درجہ کا راوی ہے ۔ ان شاء اللہ علامہ شعیب الارناؤط نے بھی ایک روایت کی تحقیق کے دوران اسے مختلف فیہ قرار دینے کے بعد کہا کہ ایسے راوی کی روایت حسن فی الشواہد کے درجے کی ہے۔[4] بہرحال ان بڑوں کی بات مانتے ہوئے اگر کلثوم بن الجوشن کو حسن الحدیث مان لیں اور اس اثر کو قبول کرلیں مزید یہ کہ کئی ایک کبار اہل علم کی کتب میں اس اثر کا منقول و متداول ہونا اور معمول بہ ہونا اپنی جگہ لیکن مقطوع ومرفوع کی تمیزایک ضروری امر ہےجس کی اہمیت وضرورت سے کوئی ذی علم انکاری نہیں ،نیز مذکورہ اثر میں موجود دعا کو مسنون (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت )سمجھنا صحیح نہیں ۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک اور دعا بھی اس حوالے سے منقول ہے۔ جوکہ یہ ہے : حسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس میں کسی شخص کے یہاں بچے کی ولادت کی اطلاع دی گئی اسے دوسرے شخص نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا : ’’ تمہیں ایک گھوڑ سوار کی مبارکباد ہو ‘‘ اس پر حسن بصری رحمہ اللہ گویا ہوئے : ’’ تمہیں کیا معلوم کہ وہ گھوڑ سوار ہوگا یا درزی ہو گا یا نجا ر ؟؟ ‘‘ |