Maktaba Wahhabi

123 - 126
سے بہتر تھا کہ اب اس کی روح دنیا چھوڑ کر اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کرچکی تھی) انہوں نے شکم سیر ہو کر کھانا کھایا پھر بیوی سے صحبت بھی کی ،جب سب کاموں سے فارغ ہو کر بالکل ہی مطمئن ہو گئے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے یہ مسئلہ بتایئے کہ اگر ہمارے پاس کسی کی کوئی امانت ہو اور وہ اپنی امانت ہم سے لے لے تو کیا ہم کو برا ماننے یا ناراض ہونے کا کوئی حق ہے؟ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نےجواب دیا : ہرگز نہیں ، امانت والے کو اس کی امانت خوشی خوشی دے دینی چاہئیے ۔ شوہر کا یہ جواب سن کر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : ’’ آج ہمارے گھر میں یہی معاملہ پیش آیا کہ ہمارا بچہ جو ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھا آج اللہ تعالیٰ نے وہ امانت واپس لے لی اور ہمارا بچہ مرگیا یہ سن کر ابو طلحہ چونک کر اٹھ بیٹھے اور حیران ہو کر بولے کہ کیا میرا بچہ مر گیا؟ بچے کی میت دیکھ کر پڑھا : انا للہ و انا الیہ رجعون ۔ اور صبح فجر کی نماز میں گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ساری روئیداد رکھ دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’وَالَّذِي بعثني بِالْحَقِّ، لَقَدْ قَذَفَ اللَّهُ تَعَالَى فِي رَحِمِهَا ذَكَرًا، لِصبرها عَلَى وَلَدِهَا‘‘ یعنی:’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس (ام سلیم رضی اللہ عنہا )کے اپنے بچے کی وفات پر صبر کرنے کی وجہ سے اس (ام سلیم رضی اللہ عنہا )کے بطن میں ایک بچہ عطا فرما دیا ہے ۔ ‘‘ پھر جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کو منگوایا اور کھجور نرم کرکے اس کے منہ میں ڈالی ، اور انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ اسے اپنی والدہ کے پاس لے جاؤ۔‘‘ اور ان سے کہنا : ’’ بَارَكَ اللّٰهُ لَكِ فِيهِ، وَجَعَلَهُ بَرًّا تَقِيًّا‘‘[1] یعنی :’’اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس بچے میں برکت عطا فرمائے اور اسے نیک صالح اور متقی بنائے۔‘‘ مذکورہ واقعہ میں آخر میں درج کئے گئے الفاظ سے واضح ہے کہ بچے کی ولادت کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کن الفاظ میں مبارکباد دی۔
Flag Counter