مجھے دے دیا ۔ یہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے لڑکے تھے ۔[1] اس روایت کے الفاظ ہیں : ’’ وَدَعَا لَهُ بِالْبَرَكَةِ‘‘ یعنی ان کے لئے برکت کی دعا کی ۔ مذکورہ روایات میں مطلق طور پر برکت کی دعا کا تذکرہ تو ہے لیکن دعا کرنے کے من و عن الفاظ کیا تھے ؟ یہ واضح نہیں ہے ، لہذا اس موقع پر دعائے برکت تو ثابت ہوگئی لیکن اس کے کوئی مخصوص الفاظ ان نصوص میں موجود نہیں ۔ البتہ بعض روایات میں چند کلمات کی صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعائیہ کلمات ادا فرمائے ، جیسا کہ : سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کا ایک قصہ جو کہ متعدد اسانید کے ساتھ حدیث کی مختلف کتب میں موجود ہے اور صحیح بخاری میں بھی ہے ، البتہ مسند بزار میں کچھ زائد الفاظ کے ساتھ وہ قصہ مروی ہے اورانہی سے ہمارا استدلال ہے، لہذا مسند بزار کا وہ قصہ ملخصاً ذکر کررہے ہیں : سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا (چونکہ مسلمان ہوچکی تھیں اور ان کے شوہرمالک بن نضر کافر تھے) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے پوچھا کہ کہ تم نے اسلام قبول کیا ہے؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : نہیں ۔ جواب دیا جب تک اسلام قبول نہیں کرو گے میں تم سے نکاح نہیں کرسکتی۔ بلکہ کہا کہ اسلام قبول کرو تو بس یہی میرا حق مہر ہے ۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے بچے سے نوازا ، جوکہ بیمار ہوگیا اسی اثناء میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے جانا پڑا اور جب واپس لوٹے رات کاوقت تھا۔ اور ان کا بیٹا دارِ فانی کو چھوڑ چکا تھا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آتے ہی بچے کے بارے میں پوچھا تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو چونکہ اپنے خاوند کی سفر سے واپسی کی وجہ سے تھکاوٹ کا احساس تھا ، اس لئے اس وقت بچے کی وفات کی اطلاع دینا مناسب نہ سمجھا ، لہذا کہہ دیا کہ پہلے سے بہتر ہے ، (یقیناً پہلے |