آدمی کو ( یعنی اس غلام یا باندی کو جو اس نے غنیمت کے قیدیوں میں سے خیانت کر کے لئے ہوں ) لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں ( اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ۔ ( اور خبردار ! میں تم سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر لہراتے ہوئے کپڑے رکھے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریاد رسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہے دوں کہ میں ( اب ) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے تھے ۔ (خبر دار ! ) میں تم میں کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ دیکھوں کہ وہ اپنی گردن پر سونا چاندی لادے ہوئے ( میدان حشر میں ) آئے اور پھر مجھ سے یہ کہے کہ یا رسول اللہ ! میری فریا درسی کیجئے اور میں اس کے جواب میں یہ کہہ دوں کہ میں (اب) تمہاری کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ میں نے تمہیں شریعت کے احکام پہنچا دئیے ۔‘‘ [1] ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ عمال کے ہدایا اور تحائف خیانت ہیں ۔‘‘[2] عدی بن عمیرہ فرماتے ہیں :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ :’’ہم تم میں سے جس کسی کو کسی کام (یعنی زکوٰۃ وغیرہ وصول کرنے) پر مقرر کریں اور وہ شخص ہم سے سوئی کے برابر یا اس سے کم و بیش چیز کو چھپائے تو یہ خیانت میں شمار ہوگا جو اسے روز قیامت رسوا کر کے لائے گا۔‘‘[3] سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ ہم نے جس کو بھی کسی کام پر مامور کیا ہوتو اس کا وظیفہ اور تنخواہ مقرر کی ہو پھر اس کے بعد جو کچھ وہ اس سے زائد حاصل کرے وہ چوری اور خیانت ہے۔‘‘[4] |