ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتابصفۃ الصفوۃ میں عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھاہے کہ ’’ وہ حمص پر عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے امیر مقررتھے انہوں نے اپنے چند قرابت داروں کو کہا کہ ’’ اللہ کی قسم ! میں آرے سے چیر دیا جاؤں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس چیز سے کہ میں ایک فلس پائی کی بھی خیانت یا زیادتی کروں ۔‘‘ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف اعلام الموقعین میں سدّ ذرائع کے دلائل کی بحث کے ضمن میں لکھتے ہیں :’’امیر ،قاضی اور شفاعت کنندہ کیلئے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ دنیا کی تباہی کی بنیادی وجہ یہی ہے اور اس کے ساتھ غیر اہل خائن ، کمزور اور عاجز لوگوں کو مناصب پر فائز کرنا ۔ اس کی وجہ سےمعاشرے میں ایسا فساد او ر بگاڑ پیدا ہوا کہ الحفیظ والامان۔ یہ اس وجہ سے کہ جس شخص کی ہدایا قبول کرنے کی عادت نہیں ہوتی منصب سنبھالنے کے بعد اگر ا س کی ان تحائف سے خاطر مدارت شروع کردی جائے تو اس میں ہدیہ دینے والے کی ضرورت پوری کرنے پر اس کا دل مائل ہوجاتاہے ۔اور کسی چیز کی محبت آپ کو اندھا اور بہرا کرسکتی ہے ۔ اس سے اس صاحب منصب کی عادت بن جائے گی کہ وہ ہر انسان کی ضرورت پوری کرتے وقت اس سے کسی معاوضہ (بنام تحفہ)کی امید لگابیٹھے گا ۔۔۔۔[1] آخر میں میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں کہ وہ ہر مسلمان ملازم وافسر کواپنے کام اس طرح کرنے کی توفیق عطا کرے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے شامل حال رہے ۔اور وہ کام اس کیلئے دنیا وآخرت میں باعث ثواب اجر اور اچھے انجام کا سبب بنے ۔ وصلی اللّٰه وسلم وبارک علی عبدہ ورسولہ نبینا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ اجمعین ۔ |