Maktaba Wahhabi

114 - 126
پورا لیتے ہیں ۔اورانہیں باپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔‘‘ افسران اور ملازمین کو چاہئے کہ وہ ضرورت مندوں کےمسائل پہلے آئیے پہلے پایئے کی بنیاد پرحل ہونی چاہئے ۔ عدل اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ کسی بھی ملازم اور افسر کےلیے یہ جائز نہیں کہ وہ دیر سے آنےوالے کا معاملہ پہلے حل کر دےاور پہلے آنےوالے کو لٹکائے رکھے، بلکہ اسے چاہئے کہ پہلے پہل کرنےوالے کادیر سے آنے والے کےمعاملہ سے پہلے معاملہ حل کردےپہلے آنے والے کو لٹکا کرنہ رکھے۔اسی میں ملازم اور ضرورت مندوں دونوں کےلیے آرام اور آسانی ہے ۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ (ایک دن) نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مجلس میں لوگوں سے (کچھ) بیان کر رہے تھے کہ اسی حالت میں ایک اعرابی آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) (نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات) بیان کرتے رہے، اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس کا کہنا سن (تو) لیا، مگر (چونکہ) اس کی بات آپ کو بری معلوم ہوئی، اس سبب سے آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جواب نہیں دیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ (یہ بات نہیں ہے) بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں ، یہاں تک کہ جب آپ اپنی بات ختم کر چکے تو فرمایا کہ کہاں ہے قیامت کا پوچھنے والا؟ سائل نے کہا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں موجود ہوں ، آپ نے فرمایا جس وقت امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا، اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپ نے فرمایا جب کام نااہل (لوگوں ) کے سپرد کیا جائے، تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘[1] اس حدیث میں دلالت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سائل کا جواب فورا نہیں دیا بلکہ جو پہلے لوگ موجود تھے انہیں وعظ کرتے رہے پھر سائل کو جواب دیا ۔
Flag Counter