رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ کی اور تمام مسلمانوں کی۔‘‘ [1] جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔‘‘ [2] اور اسی طرح جیسا کہ ہرافسر اور ملازم کی اگر کسی او ر کے پاس ضرورت ہواس کا کسی اور سے کام ہو تو وہ پسند کرتاہے کہ وہ غیر اس کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، تو اس ملازم پر بھی پھر ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ جس کو یہ بات پسند ہو کہ اسے جہنم سے دور رکھا جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تواسے چاہیے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ اس معاملہ سے پیش آئے جس کےکیے جانے کو اپنے لئے پسند کرے۔‘‘[3] اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کےساتھ بھی ایسا ہی معاملہ اور برتاؤ کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے :’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں بن سکتا، جب تک کہ اپنے بھائی مسلمان کے لئے وہی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہتا ہے۔‘‘ [4] اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ حکیم میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو لوگوں کے ساتھ اس کے برخلاف معاملہ کرتے ہیں جو وہ اپنے لئے چاہتے ہیں ۔ چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :﴿ وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ ۙالَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ ﴾(المطففين: 1 - 3) ترجمہ :’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا |