بڑے ذمہ داران محنت ولگن اور سستی وکاہلی میں چھوٹے ملازمین کیلئے نمونہ (آئیڈیل)ہوتے ہیں اگر بڑے ذمہ داراں اور افسران اپنی ذمہ داریاں کماحقہ بدرجہ اتم واکمل ادا کریں گے تو چھوٹے اور ان کے ماتحت ملازمین ان کے تابع ہوں گے ، کام میں ہر ذمہ دار سے اس کی ذمہ داری اور اس کے تابع لوگوں سے متعلق پوچھا جائے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی چنانچہ حکمران اپنی رعایا کے ذمہ دار ہیں اور ان سے ان کی رعایا کے حوالے سے باز پرس ہو گی مرداپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور اس کے متعلق باز پرس ہو گی عورت اپنے خاوند کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی باز پرس ہو گی غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق باز پرس ہوگی الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعا کے متعلق باز پرس ہو گی۔‘‘[1] بڑے افسران تمام وقت اگر اپنے کام پابندی سے اور وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے انجام دیں گے تو وہ دوسروں کیلئے ایک بہت بڑی مثال اور نمونہ بن جائیں گے ۔ بقول شاعر : وَإِنَّكَ إِذْمَا تَأْتِ مَا أَنْتَ آمِرٌ بـِهِ تـُلـفِ مـَنْ إِيَّاهُ تـَأْمُرُ آتـِيَا اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ :اگر تم نے اپنے کسی ماتحت کو کوئی کام سرانجام دینے کا حکم دیا اور تم خود بھی اپنے واجبات اور ذمہ داریاں ادا کرنے میں پہل کرتےرہتے ہو تو تمہارا ماتحت بھی تمہارے آرڈر پر لبیک کہتا ہوا تم نے جو اسے حکم دیاہے اسے بجا لائے گا ۔‘‘ ملازم وافسر کو چاہیےکہ وہ لوگوں کے ساتھ اس رویہ سے پیش آئے جو وہ خود اپنے لئے پسند کرتاہے ۔ اسلام میں نصیحت کی قدر ومنزلت بہت عظیم ہے ۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ دین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا کس چیز کی؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے |