حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن جریر طبری کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ عثمان بن احمد الدینوری فرماتےہیں : ایک دفعہ میں ابن جریر طبری کی مجلس میں حاضر ہوا اس وقت ایک وزیر فضل بن جعفر بن فرات بھی اسی مجلس میں حاضر تھا اس وزیر سے پہلے ایک شخص آیا تھا ۔ امام طبری اس پہلے آنے والے شخص سے کہنے لگے کیا تم نہیں پڑھو گے ؟ اس نے وزیر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ پہلے پڑھ لیں ۔ اس پر امام طبری رحمہ اللہ فرمانے لگے اگر باری آپ کی ہے تو آپ کوکسی دجلہ فرات ( یعنی وزیر امیر ) کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ابن حجر فرماتے ہیں : یہ ابن جریر رحمہ اللہ کے لطائف اور بلاغت اور ابناء دنیا سے بے رغبتی وبے پرواہی کی جیتی جاگتی مثال ہے ۔‘‘ ملازم اور افسرخود کوخوداری اور امانت داری سے متصف رکھتےہوئے رشوت اور تحفوں سے بچاکر رکھنا چاہئے ۔ ہر ملازم کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی عزت نفس اور عفت کا خیال رکھےاور اسے غنی القلب ہونا چاہئے لوگوں کے مال پر نظر نہ رکھے اور ان کامال باطل طریقوں سے نہ کھائے جوکہ اسے رشوت کی شکل میں دیا جاتا ہے چاہے اسے ہدیہ(گفٹ،تحفہ) ہی کیوں نہ کہا جائے ،کیونکہ اگر اس نے لوگوں سےناجائز مال بٹورا تو اس نے باطل ذریعے سے لوگوں کا مال کھایا ، اور باطل ذریعے سے لوگوں کا مال کھانا دعا کی عدم قبولیت کا سبب ہے ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اے لوگواللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا اللہ نے فرمایا :’’اے رسولو! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں ‘‘اور فرمایا:’’ اے ایمان والو ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ ‘‘پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پراگندہ بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب! حالانکہ اس کا |