يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (المطففين: 1 - 6) ترجمہ :’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں ۔جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا انہیں مرنے کے بعد اٹھنے کا خیال نہیں اس عظیم دن کے لئے۔جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘ ملازم اور افسر کو منتخب کرنے کا معیار( کیا ہونا چاہئے )؟ ہر ملازم اور افسر میں بنیادی طور پر ضروری ہے کہ وہ طاقت ور اور امانت دار ہو ، کیونکہ قوت کے ذریعے وہ اپنے مطلوبہ کام کو کماحقہ سر انجام دے پائے گا ، اور امانت کے ذریعےوہ اس کام کو اس دل جمعی اور خلوص سے سرانجام دے گا جس سےاس کی ذمہ داری پوری ہوجائے ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں انہی دو امور کا تذکرہ فرمایاہے کہ جب صاحب مدین کی ایک بیٹی نے اپنے والد سے یہ کہا کہ :﴿ يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ﴾ (القصص: 26) ترجمہ :’’ان دونوں میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے، کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانتدار ہو۔‘‘ اور یوسف علیہ السلام سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاکہ انہوں نے بادشاہ سے یہ کہا ﴿ اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ ۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ ﴾ (يوسف: 55) ترجمہ :’’(یوسف علیہ السلام ) نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر معمور کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں ۔‘‘ قوت اور امانت کی ضد عاجزی کمزوری اور خیانت ہے ۔یہ دو چیزیں کسی بھی ملازم کو مستردکرنےاور اس کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کی وجوہات میں سے بنیادی وجہیں ہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا امیر منتخب کیا ، تو کوفہ کے چند |