Maktaba Wahhabi

109 - 126
رکھے نہ اس کیلئے یہ روا ہے کہ وہ اس وقت میں سے اپنےذاتی کاموں کیلئے وقت نکالے ،یا پھر کسی اور کے کاموں کیلئے جن کا اس کی ذمہ داری سے کوئی تعلق نہیں ۔کیونکہ ڈیوٹی کیلئےمخصوص کیا گیا وقت وہ ملازم اورافسرکی ملکیت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ وہ امانت ہے جس کا وہ معاوضہ وصول کر رہاہے ۔ شیخ معمربن علی البغدادی رحمہ اللہ نے وزیر نظام المُلک کو ایک بلیغ اور مفید نصیحت کرتےہوئے فرمایا:’’اے صدر الاسلام آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عام لوگ تو قاصداور وافد(یعنی آنے جانے والوں ) کے معاملے میں خود مختار ہوتے ہیں جس سے چاہتے ہیں مل لیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں نہیں ملتے ، لیکن جس شخص کے ہاتھ میں زمام ِحکم اور امر ولایت ہے وہ قاصد اور وافد ( آنے جانے والے ضرورت مندوں ) کے معاملے میں خود مختار نہیں ہے ، کیونکہ جو مخلوق پر امیر ہے وہ حقیقت میں ان کا خادم اور ملازم ہے ، اس نے اپنا وقت ان کیلئے بیچ کر اس کی قیمت وصول کرلی ہے ، لہٰذا اس کے دن کا کوئی حصہ بھی اس کے اختیار میں نہیں ہے کہ جس میں وہ اپنی مرضی سے تصرف کرسکے ، اور اس کیلئے یہ روا بھی نہیں ہے کہ وہ نوافل پڑہتا رہے یا اعتکاف میں بیٹھ جائے۔۔۔ کیونکہ یہ سب نوافل ہیں اور یہ جو ذمہ داری اس کو سونپی گئی ہے وہ فرض ہے ۔‘‘ اور ایک دفعہ نصیحت کرتے ہوئے اسے یہ فرمایا:’’ اپنی قبر کوبھی ایسے ہی تعمیر کرو جیسےآپ نے اپنے محل کو تعمیر کیا ہے ‘‘ ( یعنی قبر کیلئے بھی اسی اہتمام سے تیاری کرو جس اہتمام سے تم نے اپنا محل تعمیر کروایاہے ) ۔[1] لہٰذا جب انسان اپنے لیے یہ پسند کرتاہے کہ میری محنت کی مجھے مزدوری مکمل ملے اس میں کسی قسم کی کمی بیشی اور کٹوتی نہ کی جائے اسی طرح اس پر بھی لازم ہے کہ کام کیلئے مختص کردہ وقت میں بھی وہ کوئی کمی بیشی اور کٹوتی نہ کرے ۔ ایسا نہ ہوکہ کام کے وقت وہ اور( ذاتی ) ذمہ داریاں ادا کرتا رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان مطففین کی مذمت کی ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور جب لیتے ہیں تو پورا پورا چاہتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو اس میں ڈنڈی مارتے ہیں اور دوسروں کے حق مارتے ہیں چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ أَلَا
Flag Counter