کے زمرےمیں آجاتے ہیں جس میں بعض بندوں کے بعض دیگر پر حقوق لازم آتے ہیں ۔ جیسے وہ گروی وغیرہ جس پربغیر کسی دلیل کےکسی کو امین بنایا جاتاہے ۔ ان تمام قسم کی امانتوں کی اللہ تعالیٰ نے حفاظت کرنے اور انہیں ادا کرنے کا حکم دیاہے ۔ پس جو شخص انہیں دنیا میں ادا نہیں کرے گا قیامت کے دن اس سے اس کی وصولی کی جائے گی ۔‘‘ اور فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾ ترجمہ :’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو۔‘‘(الا ٔنفال: 27) علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ خیانت میں تمام چھوٹے بڑے لازم ومتعدی گناہ شامل ہیں ، علی بن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں :’’وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُم‘‘ امانت سے مراد وہ تمام کام ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے بندے کو امین بنایا ہوتاہے ،یعنی فرائض وواجبات ۔ فرمایا ’’ خیانت نہ کرو ، یعنی ان سے بد عہدی نہ کرو ۔ ایک روایت میں ہے:’’لَا تَخُونُوا اللّٰهِ وَالرَّسُول‘‘ فرماتے ہیں :’’اس کی سنت چھوڑ کر اور نافرمانی کرکے منع کردہ امور کا ارتکاب کرکے( خیانت نہ کرو) ۔‘‘ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾ (الا ٔحزاب: 72) ترجمہ’’ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ’’ منافق کی تین نشانیاں ہیں :جب بات کرتا ہے جھوٹ بولتاہے، |