انگریزوں کےخالف سرگرم عمل ہونے کی دلیل کے طور پر مولانا رشید احمد گنگوہی کی گرفتاری اور چھ ماہ تک حوالات میں بند رہنے کے واقعہ کوبری شدومدکے ساتھ پیش کیاجاتا ہے، حالانکہ بقول مولانا میرٹھی صاحب آپ کی یہ گرفتاری بعض کینہ پرور بدخواہوں کی جھوٹی مخبری کا نتیجہ تھی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں :
”جب بغاوت وفساد کاقصہ فروہوااوررحم دل حکومت نے دوبارہ غلبہ پاکر باغیوں کی سرکوبی شروع کی توجن بزدل مفسدوں کوسوائے اس کے اپنی رہائی کا کوئی چارہ نہ تھا جھوٹی سچی تہمتوں اور مخبری کے پیشہ سے سرکاری خیرخواہ اپنے کوظاہر کریں۔ انہوں نے اپنا رنگ جمایا اور ان گوشہ نشین حضرات پر بھی بغاوت کا الزام لگایا، ا ور مخبری کی کہ تھانہ کے فساد میں اصل الاصول یہی لوگ تھے “[1]
اورمولانا رشیدا حمد گنگوہی رحمہ اللہ کے اپنے متعلق بقول صاحب تذکرۃ الرشیدیہ تأثرات تھے:
”میں جب حقیقت میں سرکار کافرمانبردار رہاہوں توجھوٹے الزام سے میرا بال بیکانہ ہوگا، اور اگر مارابھی گیا توسرکار مالک ہے اسےا ختیار ہے جوچاہے کرے “[2]
مولانا عاشق الہی صاحب مذکورہ بزرگان دیوبند کےخلاف مخبری، پولیس کی تلاشی اور اس کی ناکامی کے متعدد واقعات ذکر کرنے کے بعد تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
”ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتاً بے گناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے ان باغی ومفسد اورمجرم اور سرکاری خطاوار ٹھہرا رکھا تھا اس لیے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگرحق تعالیٰ کی
|