حفاظت برسر تھی، اس لیے کوئی آنچ نہ آئی کہ آپ حضرات اپنی مہربانی سرکار کے دلی خیرخواہ تھے تازیست خیرخواہ ہی ثابت رہے “۔ [1]
۳۔ مولانا مملوک علی کے بھتیجے دیوبندی فکر کے مشہور بزرگ مولانامحمد احسن نانوتوی کے متعلق ایوب قادری لکھتے ہیں :
”۲۲مئی ۱۸۵۷ء کونماز جمعہ کے بعد مولانامحمدا حسن نے بریلی کی مسجد نومحلّہ میں مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اورا س میں بتایا کہ حکومت سے بغاوت کرنا خلاف قانون ہے۔ “ [2]
اس تقریر کا شدید ردعمل ظاہر ہوا اور آپ کی جان کوخطرہ لاحق ہواجس کی بناء پر آپ کوکچھ عرصہ کے لیے بریلی چھوڑنا بھی پڑا ۔
اسی طرح مولانا مملوک علی کےصاحبزادے اور دارالعلوم دیوبندکے پہلےصدر مدرس مولانا محمد یعقوب نانوتوی ان دنوں میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر فائز تھے، ہنگاموں کے وقت آپ گھر پر ہی تھے، ہنگامہ فروہواتوآپ اپنے کام پر تشریف لے گئے، آپ سے برطانوی حکومت کے افسران بالا بڑے خوش تھے، ا ور آپ کی بڑی قدر کرتےتے، مفتی عزیز الرحمٰن لکھتے ہیں :
”ایام غدر کی چھ ماہ کی تنخواہ آپ کوپیش کی گئی توآپ نے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ جب میں نے کام نہیں کیاتو کیوں لوں“۔ [3]
مولانا عبدالخالق قدوسی اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
”اگر یہ سچاواقعہ ہے تواس سے جہاں آپ کاکمال درجہ کا زہد وورع ثابت ہوتا ہے
|