دوسرے مالکی عالم حطاب [1] لکھتے ہیں :
”مذہب کولغت میں ”راستے“اور جانے کی جگہ کےمعنی میں استعمال کیاجاتاہے، بعد میں فقہاء کے نزدیک ا س لفظ کو ان تمام اجتہادی مسائل واحکام میں ایک عرفی حقیقت کی حیثیت حاصل ہوگئی، جن کو کوئی امام [2] اختیار کرتاہے۔ “
حاشیہ الدسوتی [3]میں ”مذہب مالک“ کی وضاحت کرتے ہوئے کہاگیا ہے:
”مذہب مالک سے مراد وہ تما م اجتہاد ی احکام ومسائل ہیں جن کو امام مالک ( رحمہ اللہ ) نے اپنی پوری اجتہادی قوت صرف کرنے کے بعد اختیار کیاہے، چنانچہ ایسے تمام احکام ومسائل جن کو قرآن وسنت میں واضح طور پر بیان کردیاگیاہے ان کو کسی مجتہد کا مذہب نہیں کہاجاسکتا ہے“[4]
لیکن مجتہد کا مذہب نہ قراردینے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ مذہبیت کی بھی نفی کردی جائے گی کہ کتاب وسنت کے واضح طور پر بیان کردہ مسائل واحکام کو یا ان کے التزام کو لامذہبیت کا نام دے دیاجائے۔
”لامذہبیت ” معنی ومفہوم کے اعتبار سے
”لامذہبیت ”دراصل (لا) بمعنی غیر، ا ور ”مذہبیت ”سے مل کر بناہے، لفظ ”مذہبیت ” مذہب کا مصدر رضاعی ہے۔ جس طرح انسان میں یاء مشدد اور تاء تأنیث کااضافہ کرکے ”انسانیت“ بنالیاگیا ہے۔ مذکورہ لفظ ”لامذہبیت“ عموماً لادینیت، آزاد خیالی، دین بے
|