روحانی پیشواؤں کی بشریت کی قائل نہیں ہے۔ چنانچہ مولانا رفیع الدین صاحب فرماتےتھے کہ :
” میں نےا نسانیت سے بالا درجہ ان (۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) کا دیکھا، وہ شخص ایک فرشتہ ٔ مقرب تھا جو انسانوں میں ظاہر کیاگیاتھا۔ “ [1]
اور شاید یہی وجہ ہے مولانا موصوف نےا یام طفلی میں خواب میں دیکھاتھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ [2]
ذرا اسے بھی ایک نظر۔ ۔ ۔
شخصیت پرستی کا ایک نادر نمونہ ملاحظہ فرمائیں : اشرف السوانح کے مؤلف خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوب (؟) (بی، اے علیگ ) رقم طراز ہیں :
”ایک بار عشق ومحبت کے جوش میں حضرت والا سے بہت جھجھکتے اور شرماتے دبی زبان سے عرض کیاکہ حضرت ایک بہت ہی بیہودہ خیال دل میں بار بار آتاہے جس کوظاہر کرتےہوئے بھی نہایت شرم دامن گیر ہوتی ہے اور جرأت نہیں پڑتی، حضرت والا اس وقت نماز کے لیے اپنی سہ دری سے اٹھ کر مسجد کے اندر تشریف لے جارہے تھے، فرمایا : کہیے، کہیے، احقر نے غایت شرم سے سر جھکائے ہوئے عرض کیا کہ میرے دل میں بار بار یہ
|