Maktaba Wahhabi

272 - 385
۱۔ مستحق امامت اور اس کے درجات : [1] حضرت ابومسعود بدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے : يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِلْمًا، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ» قَالَ الْأَشَجُّ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ سِلْمًا سِنًّا[2] ” یعنی لوگوں کی امامت ان میں کتاب اللہ کاسب سے زیادہ پڑھنے والا کرائے گا، اگر کتاب اللہ کے پڑھنے میں سب برابر ہوں گے تو سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ان کی امامت کرائے گا، ا گر سنت کی معرفت اورا س کے علم میں سب برابر ہوں گے تو ان میں جس کو ہجرت میں سب پر سبقت حاصل ہوگی وہ امامت کرائے گا، اگر ہجرت میں بھی سب برابر ہوں گے تو عمر میں جس کو سب پر فوقیت حاصل ہوگی وہ امامت کرائے گا “۔ اس غیر مبہم بلکہ واضح ترین فرمان رسول کے بعد کیاکسی اجتہاد وقیاس کی ضرورت تھی؟ ہر گز نہیں۔ لیکن ”لااجتہاد مع النص“ کے مسلمہ اصول کے باوجود رائے وقیاس سے کام لیاگیا، ا ور ماہرین فقہ جن کو ایسے ماہرین اطباء سے تشبیہ دی جاتی ہے جو
Flag Counter