خودبخود فرمانے لگے کہ سائیس جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاحال ہے ؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہواہے “ [1]
۲۔ تذکرۃ الرشید کے مؤلف مولاناعاشق الہی تحریرفرماتے ہیں:
”ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیق جانی مولانا قاسم العلوم اورطبیب روحانی اعلی حضرت حاجی صاحب ونیز ضامن صاحب ہمراہ تھے، کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبردآزمادلیر جتھہ اپنی سرکار کےمخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یاہٹ جانے والانہ تھا، ا س لیے اٹل پہاڑ کی طرح پیر جماکر ڈٹ گیا۔ اور سرکار پر جاں نثاری کے لیے طیار (کذا) ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت وجوانمردی!کہ جس ہولناک منظرسے شیرکاپتہ پانی، ا ور بہادر سے بہادر کازہرہ آب ہوجائے، وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلوار لیے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لیے ہیں۔ چنانچہ آپ پرفیریں ہوئیں اور حضرت ضامن صاحب رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف گولی کھاکر شہید ہوئے“۔
یہ ہےعلماء دیوبند کی انگریز دشمنی کی عظیم مثال! شاید ہی اہلحدیثوں کی پوری تاریخ میں انگریز نوازی کی ایسی کوئی مثال موجود ہو۔ یہی نہیں بلکہ اس لڑائی میں بعض محیر العقول واقعات بھی رونما ہوئے اور نقصان نہ ہونے کےبرابر رہا۔ کرامات میں سے ایک کرامت یہ ظاہر ہوئی کہ ایک گولی مولانانانوتوی کےدماغ کوچیرتی ہوئی نکل گئی، تمام کپڑے خون سے ترہوگئے، لیکن زخم کا نام ونشان تک نہ تھا، حضرت مولانا قاسم العلوم ایک مرتبہ یکایک سر پکڑ کر بیٹھ گئے جس نے دیکھا جانا کہ کنپٹی میں گولی لگی اور دماغ پارکرکے نکل گئی۔ اعلیٰ حضرت نے لپک کر زخم پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کیاہوا؟ میاں ! عمامہ اتار کر سر کو جودیکھا کہیں گولی کا نشان تک نہ ملا، اور تعجب یہ ہے کہ خون سے تمام کپڑے تر“[2]
|