’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کے ساتھ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کی آدھی کمائی پر معاہدہ کیا تھا؛ یہ معاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قائم رہا۔‘‘[1] اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے ملک بدر کردیا۔اس لیے کہ ان کے ساتھ شرط یہ طے ہوئی تھی کہ وہ اس زمین کو اپنے مال سے آباد کریں گے ؛ اور فصلوں کی زراعت کے لیے بیج وہ اپنے پاس سے استعمال کریں گے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام کا صحیح ترین قول یہ ہے کہ یہ جائز ہے کہ بیج عامل کی طرف سے ہو۔ بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ بیج صرف عامل کی طرف سے ہی ہوگا۔ ایسے ہی آپ نے صحیح بخاری کی روایت سے نشانہ بازی کی مشروعیت پر استدلال کیا ہے۔ چنانچہ آپ (۲۸/۱۰ پر) فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے بنی اسماعیل! نشانہ بازی کرو بیشک تمہارا باپ نشانہ بازی کرنے والا تھا۔‘‘[2] |