Maktaba Wahhabi

49 - 156
مخدوم العلماءحضرت مولانامحمداسماعیل سلفی رحمہ اللہ از : حافظ احمد شاکر صاحب۔ مدیر مکتبہ سلفیہ۔ لاہور میانہ قد، فکر و تدبرکی لکیروں سے مزین پیشانی، بشرہ علمی وجاہت اور موروثی نجابت کا آئینہ دار، ذہانت و ذکاوت کی غماز آنکھیں، متانت و خوش مزاجی کے عمدہ پیکر، لباس سادہ مگر باوقار چال میں تمکنت بھی ہوتی تھی مگر مسکنت کا پہلونمایاں ہوتا تھا۔ دل کے غنی اور طبیعت کے فقیر تھے۔ یارب! وہ ہستیاں اب کس دیس بستیاں ہیں کہ جن کو دیکھنے کو اب آنکھیں ترستیاں ہیں اخلاق وعادات سیاسی مشغولیتوں اور جماعتی مصروفیتوں کے باوجود حضرت مرحوم نے تقریباًنصف صدی قرآن و حدیث کی شمع اسی جگہ فروزاں رکھی جہاں ایک مرتبہ حضرت کے بزرگ روشن کر گئے تھے۔ اگرچہ اس عرصہ میں رنگون، سیلون، بمبئی، دہلی، مدراس، ملتان اور آخر کار مدینہ منورہ سے گرانقدر پیش کشیں ہوئیں۔ لیکن ابتدائی معاشی مشکلات کے باوجودقناعت و استقلال سے دو تہائی سے زیادہ زندگی گزار کر خدمت دین کی درخشاں مثال چھوڑ گئے۔ یہی قناعت و استقلال تھا کہ21/فروری1968ء کوپورا شہرامڈ آیااور بلک بلک کر رو رہا تھا۔ پھر اس طویل عرصہ میں حضرت کے کردار پر کوئی شخص انگشت نمائی نہیں کر سکتا۔ جماعتوں میں سب سے نازک مسئلہ سرمائے کا ہوتا ہے۔ لیکن حضرت کے اعتماد اور بلندی کردار کا اندازہ اس سے لگائیے کہ تقریباً ایک لاکھ روپیہ سالانہ اپنے رفقاء سے جمع فرماتے تھے جس میں40 یا 50 ہزار روپیہ جامعہ سلفیہ کےلیے، کچھ بیرونی سفیروں کو باقی اپنے مدرسے کے اخراجات، لیکن ساری زندگی کسی شخص نے کبھی بے اعتمادی کا اظہار نہیں کیا۔
Flag Counter