Maktaba Wahhabi

47 - 156
مسجد کی بنا اور تاسیس میں ان کی مساعی شامل رہیں۔ مولانا کے مواعظ، درس و تدریس اور تبلیغ کا سلسلہ نہایت وسیع تھا۔ صبح کا درس قرآن نہایت فاضلانہ، عالمانہ، دلنشیں، موثر اور جامع ہوتا تھا۔ شہرکے ہرحصہ سے سامعین جوق در جوق تشریف لاتے تھے۔ صبح کے درس کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ گویا عہدحاضر کا ابن تیمیہ قرآن و سنت کے موتی لٹا رہا ہےاور اہل طلب، علم و حکمت کی جھولیاں بھر بھر کر لے جا رہے ہیں۔ کئی سال سے یہ سلسلہ جاری تھا اور کئی بار قرآن پاک کو ختم کیا۔ آپ کے حلقہ درس سے فارغ التحصیل کئی علمأ دُرِّ نایاب اور گوہر ماہتاب بن کر نکلےاو راپنےچراغ سے کئی چراغ روشن کیے۔ مولانا علم و حکمت اور عقل ودانش کے بے مثال چراغ تھے۔ مشکل سے مشکل مسائل ایسے حل فرماتے کہ بالکل عام شخص بھی اپنی تشنگی بجھا سکتا تھا، ممکن ہے کہ بعض اکابر علم و فضل میں آپ سے بڑھ کر ہوں لیکن عقل و فراست اور تفقہ فی الدین کے امتزاج نے ان کو یگانہ روزگار بنا دیا تھا۔ تقریر نہایت دلپذیر اور خطابت نہایت فصیح، بلندپایہ اور عام فہم کے علاوہ نہایت جامع اور پرمغز ہوتی تھی۔ حضرت مولانا کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ تمام مکاتب فکر کے علماء سے ذاتی مراسم تھے۔ مولانا محمد چراغ صاحب، صوفی عبدالحمید صاحب سواتی، مولانا عبدالواحد صاحب قاضی شمس الدین صاحب اور مولانا محمد بشیر صاحب سب کے ساتھ برادرانہ تعلقات تھے۔ حضرت مولانا نے اپنے خطبات اور خطابت میں فروعی مسائل کو کبھی اس طرح بیان نہیں کیا کہ اختلاف کی آگ بھڑک اٹھے۔ آپ نے منبرو محراب میں کبھی فرقہ ورانہ جذبات کو برانگخیت نہیں کیا۔ وہ اس کوافتراق وتشتت سے تشبیہ دیتے تھے۔ مخالفین کے نارواحملوں کی صورت میں بھی مصالحانہ رویہ کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ مولانا کی چنداہم خصوصیات شیخ عبدالغفار اثر صاحب جو مولانا کے جیل کے بھی ساتھی ہیں فرماتے ہیں کہ’’تحریک ختم نبوت کی نظربندی کے دوران لاہور سینٹرل جیل میں کئی ماہ تک ساتھ رہے بلکہ ایک ہی کمرہ میں نشست و برخاست کا موقع ملا۔ میں نےان کو نہ صرف ایک عظیم انسان پایا بلکہ چنددر چند نایاب خصوصیات کا حامل دیکھا۔ پہلی چیز جوبہت نمایاں ہوکرسامنے آتی ہےوہ یہ کہ نہ صرف عوام کے نزدیک ہی امامت کے لائق تھے بلکہ خواص بلکہ علماء کے طائفہ میں بھی رشد و ہدایت کے سرتاج اور علم و حکمت کے بادشاہ تسلیم کیے جاتے تھے۔ نظربندی کے دوران جب کبھی خطبات جمعہ اور
Flag Counter