مولانا سلفی رحمہ اللہ کی وسعت ظرف
اپنی کتاب جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث کے صفحہ 84 پر رقمطراز ہیں کہ مولانا کے ارشادات کا جب یہ مقام جن میں تین احادیث پر شبہ کا اظہار فرمایا گیا ہے تو مجھے بے حد دکھ ہوا۔ مولانا کے ان ارشادات کے متعلق جب کچھ لکھنے کی کوشش کی تو طبیعت رنج اور افسوس کے جذبات سے لبریزہو گئی۔ اس لیے قلم رکھ دیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ مولانا کے احترام کے خلاف نوک قلم سے کوئی فقرہ نکل جائے۔ آج مدت کے بعد قلم اٹھایا۔ سنت نبوی کے متعلق جذبات میں آج بھی دکھ اور قلق موجود ہے۔ اتنی پوزیشن کے لوگ کسی بےپروائی سے سنت کے متعلق جو منہ میں آئے کہہ جاتے ہیں۔ اسی وقت اگر کوئی ناخوشگوار لفظ قلم سے نکلا تو صمیم قلب سے اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔ مقصد طعن و تشنیع نہیں۔ اس دور فتن میں سنت اور علوم نبویہ کے خلاف ایسے الفاظ فی الواقع ناگوار ہیں۔ مولانا پر طنزقطعاً مقصود نہیں۔ سنت کے ساتھ محبت اور قلب کا سنت سے ربط ان پریشان خیالات کے اظہار کا موجب ہوا ہے۔
گفتگوئے عاشقاں درباب رب
جذبہ عشق است نے ترک ادب [1]
کتاب کے آخر میں رقمطراز ہیں کہ’’میرے دل میں دونوں بزرگوں کے لیے پورا احترام ہے۔ لیکن میں نے اپنے مسلک کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی لفظ آپ حضرات کی شان کے خلاف ہو تو بصمیم قلب اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ لیکن اپنے مسلک کو کسی مصلحت پر قربان کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ واما حب لیلیٰ فلا اتوب کتاب کا خاتمہ حسب ذیل دعا پر کیا ہے۔
اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابه (آمین)
|