عیدین یا دوسرے مواقع اور اسلامی تقریبات میں قیادت کی ضرورت محسوس ہوتی تو بلا تامل ان ہی کو منتخب کیا جاتا۔ حالانکہ ملک کے بڑے بڑے عالم و فاضل،صاحبان منبر و محراب موجود ہوتے جن میں مولانا سیدابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ ، مولانا سیدعطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ، مولانا امین حسن اصلاحی، صاحبزادہ فیض الحسن اور مولانا ابوالبرکات حسنات احمد آف مسجد وزیرخان بھی سجن عام میں مولاناکے ساتھ محبوس ہوئے۔
مولانا میں دوسری خصوصیت تھی جس نے انہیں سوسائٹی مزاج میں نہ صرف ایک عظیم مقام دیا بلکہ ہر شخص کو ان کا گرویدہ بنا دیا۔ وہ ان کا حسنِ سلوک،مزاج کی حس،خوش طبعی،بےتکلفی اور بغیر کسی تصنع و بناوٹ کے سچااور مخلصانہ اسلامی تعلق ہے۔ یہ تعلق انہوں نے ہر شخص سے استوار کیا۔ اس کا بھرپور مظاہرہ ان کے جنازہ پر دیکھا گیا۔ ہزار ہا شخص روئے نہیں بلکہ دھاڑیں مار کر نالہ و شیون کرتے دیکھے گئے۔ جنازہ میں کثرت اژدھام انہی لوگوں کا تھا جو مولانا سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔ شہر میں مکمل ہڑتال اور جنازہ کے دن کاروبار کی بندش عوام کی عقیدت کی ترجمان ہے اور مولانا کے حسنِ اخلاق کا پرتوہے۔ اللهم اغفرله وارحمه اعف عنه. [1]
والد محترم کے ساتھ سفر حج میں فیصل آبادکے حضرت مولانا مجاہد الحسینی نے بھی بیان کیا تھا کہ تحریک ختم نبوت کے زمانہ میں ایام نظربندی کے دوران جیل میں موجود تمام علماء کا متفقہ فیصلہ تھا کہ درس قرآن صرف شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ارشاد فرمائیں گے۔ حالانکہ اس جیل میں ہر مکتب فکر کے بڑے بڑے فاضل علمائے کرام موجود تھے۔
|