Maktaba Wahhabi

34 - 131
غزوۂ بدر کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کی ذمے داری سونپی تھی۔ یہ بہت بڑی ذمے داری تھی۔ انھوں نے یہ ذمے داری بطریقِ احسن نبھائی۔ [1] غزوۂ بدر میں مسلمانوں نے فتح پائی۔ فتح کی خوشخبری مدینہ پہنچی تو اہلِ مدینہ بہت خوش ہوئے۔ تاہم ایک گروہ اُن میں ایسا بھی تھا جسے مسلمانوں کی فتح کے متعلق سن کر قطعی اچھا نہیں لگا تھا۔ یہ یہودِ مدینہ کا گروہ تھا۔ یہودِ مدینہ مارے حسد کے آگ بگولا ہو گئے۔ اُنھوں نے سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہوئے امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنی چاہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے بنو قینقاع کے بازار میں اُن سے مختصر خطاب کیا۔ آپ نے اُن سے فرمایا کہ کافرینِ قریش کی جو درگت ہوئی ہے اُس سے عبرت حاصل کرو اور اسلام لے آؤ۔ تم خوب اچھی طرح جانتے ہو کہ میں نبیِ مرسل ہوں۔ یہودی نجانے کس خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ کہنے لگے کہ محمد! آپ کا پالا دراصل اُن لوگوں سے پڑا تھا جو حرب و ضرب کے ہنر سے یکسر ناواقف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے انھیں مات دے ڈالی۔ یوں بنو قینقاع کے یہودیوں نے سب سے پہلے علانیہ سرکشی کی راہ اختیار کی۔ انھی دنوں ایک مسلمہ خاتون ان کے بازار گئی۔ اُسے ایک سنار سے کچھ زیورات بنوانے تھے۔ وہ دکان میں بیٹھی تھی کہ ایک یہودی شیطان کو خباثت سوجھی۔ اُس نے موقع پاکر خاتون کی قمیص کا پس دامن، دوپٹے کے پلو سے باندھ دیا۔ خاتون کو پتہ نہیں چلا۔ وہ جانے کو اُٹھی تو اس کا پردہ کھل گیا۔ آس پاس کھڑے یہودی جو اسی انتظار
Flag Counter