Maktaba Wahhabi

33 - 131
لالچ سے بچا لیا گیا، تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ [1] حضرت خنسا بنتِ خذام رضی اللہ عنہا اُن کی اہلیہ محترمہ تھیں جن کا تعلق انصار ہی کے ایک قبیلے اوس سے تھا۔ اُن کے والد بنی عوف کے ایک شخص سے اُن کا بیاہ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ابو لبابہ کو پسند کرتی تھیں۔ یہ معاملہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپ نے اُن کے والد سے کہا کہ بیٹی کا بیاہ ابو لبابہ ہی سے کر دیجیے۔ [2] یوں حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور حضرت خنسا رضی اللہ عنہا رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ اُن کے ایک بیٹی تھی جس کا نام لُبابہ تھا۔ اُسی سے اُن کی کنیت ابو لبابہ ہوئی۔ لُبابہ کی شادی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی۔ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بہت بہادر تھے۔ جنگ یمامہ میں اُنھوں نے کافروں کے ایک سرغنہ رجال بن عنفوہ کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ رجال بن عنفوہ کافروں کے سرغنہ مسیلمہ کذاب کا بہت بڑا حامی تھا۔ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ اسی جنگ میں مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اُن کی شہادت کی خبر ملی تو فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ میرے بھائی پر رحمت کرے۔ وہ دو اچھی باتوں میں مجھ پر سبقت لے گیا۔ وہ مجھ سے پہلے اسلام لایا تھا اور مجھ سے پہلے شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔‘‘ [3] حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اُن انصار میں شامل تھے جو پہلے پہل اسلام لائے تھے۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو تبلیغ و تعلیم اسلام کے لیے یثرب روانہ کیا تھا۔ یہ لوگ اُنھی کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ بعد ازاں اُنھوں نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
Flag Counter