اس پر اجماع ہے اور یہی قول راجح ہے کیونکہ اونٹ کے علاوہ دیت میں دی جانے والی تمام اشیاء کی قیمت ہی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
(10)۔قتل خطا کی نسبت قتل عمد اور قتل شبہ عمد میں دیت کڑی ہے کہ سو اونٹوں کو چار حصوں میں یوں تقسیم کردیا گیا ہے کہ پچیس اونٹنیاں بنت مخاض ہوں،یعنی ان کی عمر ایک سال کی ہوچکی ہواور پچیس اونٹنیاں بنت لبون ہوں،یعنی ان کی عمر دو سال مکمل ہوچکی ہو اور پچیس اونٹنیاں حقہ ہوں،یعنی جو تین سال کی ہوچکی ہوں اور پچیس اونٹنیاں جذعہ ہوں،یعنی چار سال کی ہوچکی ہوں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس مقدار کی تائید ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں:
" فِي الْخَطَأِ أَرْبَاعًا: خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حِقَّةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتُ لَبُونٍ، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتُ مَخَاضٍ "
"قتل خطا" کی دیت میں پچیس حقے(جو چوتھے سال میں داخل ہوں) اور پچیس جذعے(جو پانچویں سال میں داخل ہوں ) اور پچیس تیسرے سال میں داخل اور پچیس دوسرے سال میں داخل اونٹنیاں شامل ہوں گی۔"[1]
اگر قاتل مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق دیت ادا کردے تو مقتول کے ورثاء کو چاہیے کہ وہ اسے قبول کریں،البتہ اگر قاتل چاہے تو اونٹوں کی موجودہ قیمت بھی بطور دیت ادا کرسکتا ہے۔
(11)۔"قتل خطا" کی دیت میں تخفیف ہے کہ سو اونٹوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،یعنی بیس بنت مخاض ،بیس بنت لبون ،بیس حقے ،بیس جذعے اور بیس ابن مخاض۔دیت میں یہ اقسام یا ان کی وہ قیمت ادا کی جائے گی جو رائج الوقت ہو۔
(12)۔آزاد اہل کتاب شخص ،خواہ ذمی ہو یا امن حاصل کرنے والا یا حلیف،اس کی دیت آزاد مسلمان آدمی کی دیت سے نصف دیت ہے کیونکہ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
" أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ عَقْلَ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ نِصْفُ عَقْلِ الْمُسْلِمِينَ "
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ دیا کہ اہل کتاب(یہودونصاریٰ) کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے۔‘‘[2]
(13)۔مجوسی ذمی ہو،حلیف یا پناہ لینے والا،اسی طرح کوئی بت پرست حلیف ہو یا پناہ لینے والا ان کی دیت آٹھ سو
|