جس طرح چند افراد مل کر ایک شخص کوقتل کر دیں تو سب سے قصاص لیا جاتا ہے اسی طرح اگر کچھ افراد مل کر کسی کو زخم لگائیں یا اس کا کوئی عضو کاٹ دیں گے تو ان سب کو زخم لگایا جائےگا یا عضو کاٹنے کی صورت میں سب کا وہی عضو کاٹا جائے گا جو انھوں نے مل کر کاٹا تھا اور یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اس جرم میں کس نے کتنا حصہ لیا، مثلاً:کچھ لوگوں نے ایک شخص کے ہاتھ پر تیز دھار آلہ رکھا، پھر انھوں نے مل کر زور لگایا جس سے ہاتھ کٹ گیا تو اسی طرح ان تمام مجرموں کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دو آدمیوں نے گواہی دی کہ فلاں شخص نے چوری کی ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے گواہی کی بنیاد پر ملزم کا ہاتھ کاٹ دیا، تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں ایک اور شخص کو پکڑ کر لے آئے اور کہا:اصل چور تو یہ ہے۔ پہلے شخص کے بارے میں ہم سے غلطی سر زد ہو گئی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے شخص کے خلاف دونوں کی گواہی رد کر دی اور پہلے شخص پر غلط الزام لگانے کی وجہ سے ان دونوں پر دیت عائد کر دی اور فرمایا:
" لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكُمَا تَعَمَّدْتُمَا لَقَطَعْتُكُمَا "
"اگر مجھے علم ہوتا کہ تم نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو میں تم دونوں کے ہاتھ کاٹ دیتا۔"[1]
کسی عضو پر جنایت کی وجہ سے اس کا اثر دوسرے عضو تک پہنچ جائے یا اس کے نتیجے میں جان چلی جائے تو یہ اثر بھی جنایت میں شامل سمجھا جائے گا کیونکہ جس چیز کی ذمے داری قبول کی جائے گی اس کے اثرات کی ذمے داری بھی اس میں شامل ہوتی ہے، مثلاً:اگر ایک انگلی کاٹی، پھر زخم خراب ہو جانے کی وجہ سے دوسری انگلی یا اس کا پورا ہاتھ ضائع ہو گیا تو قصاص میں پورا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ اور اگر کسی چھوٹی جنایت کے نتیجے میں جان ضائع ہوگئی تو قصاص واجب ہو گا۔
کسی عضو یا زخم میں اس وقت تک قصاص لینا درست نہیں جب تک وہ درست نہ ہو جائے کیونکہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
" أَنَّ رَجُلًا جُرِحَ فَأَرَادَ أَنْ يَسْتَقِيدَ، فَنَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُسْتَقَادَ مِنَ الْجَارِحِ حَتَّى يَبْرَأَ الْمَجْرُوحُ"
"ایک شخص کو زخمی کر دیا گیا۔ جب مظلوم نےبدلہ لینا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع کر دیا کہ وہ تندرست ہونے سے پہلے بدلہ لے۔"[2]
|