Maktaba Wahhabi

268 - 516
1۔ نئی بیوی اپنے مفاد کی خاطر اپنی سوکن کو طلاق دینے کی شرط عائد کرے۔اکثر علماء کے نزدیک یہ شرط صحیح ہے جبکہ بعض علماء اس کےفاسد ہونے کے قائل ہیں۔یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے: " وَلا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ طَلاقَ أُختِها لِتكْفأَ بِهِ مَا فِي إِنَائِهَا " "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی عورت اپنی(یادینی) بہن کو طلاق دینے کی شرط عائدکرے تاکہ اس کابرتن خالی کردے۔"[1] اور انھی کے بارے میں قاعدہ ہے کہ وہ فساد کا تقاضا کرتی ہے۔ 2۔ کوئی عورت اپنے خاوند پر یہ شرط عائد کردے کہ اس کے ہوتے ہوئے وہ دوسرا نکاح نہیں کرے گا،نہ لونڈی رکھے گا وگرنہ اسے فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔ایسی شرط درست ہے ۔حدیث میں ہے: "أَحَقُّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ" "وہ شرائط پوری کرنے کے زیادہ لائق ہیں جن کی بنیاد پر تم نے اپنے لیے شرم گاہوں کو حلال کرایا ہے۔"[2] 3۔ اگر عورت نے یہ شرط لگائی کہ اس کا خاوند اسے اس کے گھر یا شہر سے باہر نہیں نکالے گا تودرست ہے ،البتہ اس کی اجازت سے نکالنا صحیح ہے۔ 4۔ اگر عورت نے خاوند پر یہ شرط عائد کی کہ وہ اس کے اور اس کی اولاد یا اس کے والدین کے درمیان جدائی پیدا نہیں کرےگا تو یہ شرط درست ہے۔اگرخاوند اس کی مخالفت کرےگا تو عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہوگا۔ 5۔ اگر کسی عورت نے بطور مہر زیادہ رقم لینے کی شرط عائد کی یا کسی خاص کرنسی کی صورت میں حق مہر کا مطالبہ کیا تو یہ شرط صحیح ہے جس کا پورا کرنا شوہر پر لازم ہے ۔اسے پورا نہ کرنے کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے،وہ جب چاہے نکاح فسخ کرسکتی ہے،البتہ اگر خاوند نے بیوی کو راضی کرلیا تو اس کا فسخ نکاح کا اختیار ساقط ہوجائے گا۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ"عورت نے بوقت نکاح جو شرائط مقرر کی تھیں خاوند انھیں پورا کرے۔"تو آدمی نے کہا:تب عورتیں ہمیں چھوڑ دیں گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" شرائط عائد ہونے سے حقوق ختم ہوجاتے ہیں۔"[3]نیز فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
Flag Counter