Maktaba Wahhabi

236 - 516
سہام کے مطابق دوبارہ لوٹا دیا جائے گا ،البتہ خاوند یا بیوی میں سے کوئی موجود ہو تو اس پر رد نہ ہو گا۔ اس کےدلائل درج ذیل ہیں: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ" "اور اللہ کے حکم میں رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں۔"[1] چونکہ اصحاب الفرائض بھی میت کے رشتے دار ہیں، لہٰذا وہ اس کے باقی ترکہ کے(عصبات کے سوا) دوسروں کی نسبت زیادہ حقدار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "مَنْ تَرَكَ مَالاً، فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ " "جو شخص مال چھوڑ گیا وہ اس کے ورثاء کا حق ہے۔"[2] یہ حکم نبوی اس تمام مال کے بارے میں ہے جو میت چھوڑ جائے حتی کہ اصحاب الفرائض کو دینے کے بعد جو مال بچ جائے وہ بھی اس حکم میں داخل ہے۔ لہٰذا جب عصبات نہ ہوں تو اصحاب الفرائض اپنے مورث کے مال کے زیادہ حقدار ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ایام بیماری میں ان کی بیمار پرسی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انھوں نے کہا:اے اللہ کے رسول ! میرے ترکہ کی وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی اکیلی بیٹی کو کل ترکہ کا وارث قراردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کو غلط قرار نہیں دیا۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ٹوک دیتے چنانچہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر صاحب فرض اپنا مقرر حصہ وصول کر لے اور مال ترکہ باقی بچ جائے اور عصبہ وارث نہ ہو تو صاحب فرض باقی مال بھی سمیٹ لے گا اور یہی "رد" ہے۔ تمام اصحاب الفرائض پر رد ہوتا ہے سوائے زوجین کے کیونکہ زوجین کبھی نسبی رشتے دار نہیں ہوتے ،لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: "وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّٰهِ" [3] کے عمومی حکم میں شامل نہیں۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ زوجین پر رد نہیں ہوتا۔ البتہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو روایت آتی ہے کہ انھوں نے خاوند پر رد کیا تھا تو ممکن ہے انھوں نے رد کے سوا کسی اور صورت میں دیا ہو، مثلاً :وہ عصبہ یاذ و رحم بھی ہو۔
Flag Counter